پی ٹی آئی بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی، اب کیا ہو گا؟

اسلام آباد(آئی این پی) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے محفوظ فیصلہ سنادیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی ائی نے اپنے انتخابات پارٹی ائین کے مطابق نہیں کروائے، پی ٹی ائی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ پانچ رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہی، جس کی بنیاد پر تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لے رہے ہیں اور اس کو اب بلے کا نشان نہیں ملے گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف موقع ملنے کے باوجود شفاف انٹراپارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہی، الیکشنز ایکٹ کی سیکشن 215 کے تحت کاروائی کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری گیارہ صفحات پر مشتمل فیصلہ ممبر الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا نے جاری کیا، جس میں مزید کہا گیا ہے کہ چار دسمبر کا پیش کردہ سرٹیفکیٹ اور مبینہ چیئرمین پی ٹی آئی کا دائر کردہ فارم 65 مسترد کیا جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی 23 نومبر کی ہدایات کی روشنی پر عمل کرتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی بلے کے انتخابی نشان کیلیے اب اہل نہیں رہی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن کو ریگولیٹ کرنا الیکشن کمیشن کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے۔فیصلے میں پوچھا گیا ہے کہ عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی کیسے بنایا گیا؟ بانی چیئرمین کا اپنا بطور چیئرمین پی ٹی آئی عہد تیرہ جون تک تھا، پی ٹی آئی آئین میں بھی یہ لکھا ہوا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے عہدے کے دورانیہ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تیرہ جون کے بعد بانی چیئرمین تحریک انصاف بطور چیئرمین پی ٹی آئی رہ ہی نہیں سکتے تھے۔دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پر ہمارے تحفظات ہیں، آئین کی کونسی شق کی خلاف ورزی کی ہے، الیکشن کمیشن نے ہمارا انتخابی نشان واپس لینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ صرف ہماری پارٹی کا انٹرا پارٹی الیکشن دیکھا گیا، باقی پارٹیوں کو چھوڑ دیا گیا۔

بیرسٹر گوہر نے عندیہ دیا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چلینج کیا جائے گا۔واضح رہے کہ ایک روز قبل پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بائیس دسمبر تک پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنانے کی ہدایت کی تھی۔الیکشن کمیشن نے 18 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے تمام درخواستوں کو خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں پارٹی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کیسے انتخابات کرائے، الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے مطابق جو پارٹی کے ممبر نہیں وہ پارٹی کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتے، انتخابی نشان نہ دینے کے سنگین نتائج ہیں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن پر سوال ہے۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی نشان کے حصول کیلیے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر تین دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کروائے تھے، جس میں بیرسٹر گوہر بلا مقابلہ چیئرمین جبکہ عمر ایوب پارٹی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف بانی رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا، اس کے علاوہ مزید دو درخواستیں بھی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے دائر ہوئیں تھیں، جس میں الیکشن کمیشن سے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں