اُن کو ضد ہے کہ یہ موسم نہ بدلنے پائے
صبح بے شک ہو، مگر رات نہ ڈھلنے پائے
موسمِ گل بھی اگر آئے تو ایسے آئے
برق اور رعد ہو، بارش نہ برسنے پائے
جھاڑیاں اُگتی رہیں صحن چمن میں ہر سُو
پھولنے پائے شجر کوئی، نہ پھلنے پائے
یوں ہی سوئی رہے شب، چادرِ ظلمت اوڑھے
کوئی جگنو، کوئی تارا نہ چمکنے پائے
ایک لب بستہ و مجبور و تہی دست سی قوم
جو نہ زندوں میں رہے اور نہ مرنے پائے
جسم اور جان کا رشتہ رہے قائم، لیکن
زخم ایسا ہو کہ تا حشر نہ بھرنے پائے
نام سلطانیِ جمہور کا گونجے ہر سو
بات کوئی سرِ دربار نہ کرنے پائے
اک قیامت سی ہر اک گھر میں بپا ہو، بے شک
کوئی مربوط سی فریاد نہ بننے پائے
شاطرِ وقت کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے
خلقت شہر کوئی چال نہ چلنے پائے
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں