اسلام آباد(پی این آئی) ایسے موقع پر جبکہ نگران حکومت کو بجلی کی غیرمعمولی حد تک بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بھاری بلوں کی وجہ سے سخت عوامی ردعمل کا سامنا ہے اور پورے ملک میں لوگ احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ایکسپریس کے مطابق وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے لگاتار ہنگامی اجلاس بلائے ہیں اور عوام کوریلیف دینے کے وعدے بھی کیے ہیں لیکن مالی مجبوریوں اور آئی ایم ایف کے دباؤکی وجہ سے وزیراعظم کچھ بھی کر نہیں پارہے۔
آخرکار وزیراعظم کو یہی کہنا پڑا ہے کہ’’ لوگوں کو بل تو دینا پڑیں گے ‘‘کیونکہ حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔اسے موقع پر جبکہ بجلی کے بل عوام کی قوت سے باہر ہورہے ہیں اور ان کا پیمانہ صبرلبریز ہورہاہے ان پر کیپسٹی چارجزکی مد میں 1.3ٹریلین روپے کا مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے جو اسی سال بند پڑے پاور پلانٹس کو ادا کیے جانے ہیں۔ اس حقیقت کے برعکس جبکہ بجلی کی قیمت گزشتہ دوبرسوں کے دورا ن 16روپے سے دوگنا بڑھ کر تقریباً 30 روپے ہوچکی ہے
عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ان میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ بھی شامل ہے،عوام کو اس وقت جو بل وصول ہورہے ہیں ان میں صرف بجلی کی قیمت میں اضافہ ہی شامل نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے بجلی کے استعمال پر لگائے جانے والے ٹیکس بھی بڑھا دیئے گئے ہیں جوہربل کا 40 سے 50 فیصد ہوتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں