سینئر صحافی سلیم صافی نے پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل ہونے کا انکشاف کر دیا

لاہور ( پی این آئی )پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کو اقتدار دلوانے والی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کررکھی تھی۔ اسی لئے (ن) لیگ کی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما گرفتار نہیں ہوئے۔ اسی ڈیل کے تحت پیپلز پارٹی کی قیادت نے بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت ختم کروانے اور ”باپ“ کو بلوچستان کا ”باپ“ بنانے کے منصوبے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

 

 

سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے اہم انکشافات کر دیئے۔ اپنے بلاگ بعنوان “پی ڈی ایم کی موت” میں سلیم صافی نے لکھا کہ 2018کے انتخابات سے قبل اور اس کے فوراً بعد پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کو اقتدار دلوانے والی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کررکھی تھی۔ اس لئے الیکشن سے قبل (ن) لیگ کی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما گرفتار نہیں ہوئے۔اس ڈیل کے تحت پارٹی کی قیادت نے بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت ختم کروانے اور ”باپ“ کو بلوچستان کا ”باپ“ بنانے کے منصوبے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پھر سینیٹ میں رضا ربانی کی جگہ صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے کی خدمت بھی زرداری صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر سرانجام دی تھی ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران احمد خان نیازی کو ناجائز طریقے سے قوم کے سروں پر مسلط کرنے کے پروجیکٹ میں پیپلز پارٹی بھی بالواسطہ مگربھرپور طریقے سے سہولت کار بنی۔

 

 

سلیم صافی نے لکھا کہ ابتداء میں اسٹیبلشمنٹ کایہ فیصلہ تھا کہ سندھ بھی جی ڈی اے، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے اتحاد کو دیا جائے لیکن پیپلز پارٹی کی مذکورہ خدمات کی وجہ سے آخری وقت پر سندھ کی حکومت دوبارہ پیپلزپارٹی کو دلوائی گئی۔ الیکشن کے نام پر سلیکشن کے بعد بھی زرداری صاحب نے بالواسطہ اسٹیبلشمنٹ کی یوں خدمت کی کہ جے یوآئی، اے این پی اور کسی حد تک مسلم لیگ (ن) وغیرہ اسمبلی میں بیٹھنے کے حق میں نہیں تھے لیکن پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اسمبلیوں میں بیٹھنے پر اپوزیشن کو آمادہ کرکے عمران احمد خان نیازی کو مسلط کرنیوالوں کی بالواسطہ خدمت کی۔لیکن دوسری طرف بھی عمران خان تھے ۔ چنانچہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کرتے رہے کہ جب تک زرداری صاحب اندر نہ ہوں، کرپشن کے خلاف ان کے بیانیے کو پذیرائی نہیں مل سکتی ۔ چنانچہ ان سب خدمات کے باوجود نہ صرف آصف علی زرداری کو جیل میں ڈالا گیا بلکہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ان کی بہن فریال تالپور کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔

 

 

 

چنانچہ زرداری صاحب اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو پی ڈی ایم کی چھتری تلے جمع کرنے میں لگ گئے اور بالآخر اس کے قیام میں کامیاب ہوگئے۔ سلیم صافی نے مزید لکھا کہ پی ڈی ایم کا بنیادی محرک زرداری صاحب تھے لیکن بڑی جماعت کا سربراہ ہونے کے ناطے زرداری کو سربراہ بنانا ، (ن) لیگ اپنے لئے خطرناک سمجھتی تھی اور شہباز شریف کو سربراہ بنانا پیپلز پارٹی اپنے لئے خطرناک سمجھتی تھی، اس لئے قیادت کیلئے قرعہ فال مولانا فضل الرحمان کے نام نکل آیا۔ زرداری صاحب سے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں نے رابطے شروع کئے اور حتمی ڈیل بلاول بھٹو کو گلگت بلتستان سے بلا کر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے سرخیلوں کے ساتھ خفیہ ملاقات میں ہو گئی۔ یوں پیپلز پارٹی نے کچھ ایشوز کو بہانہ بنا کر پی ڈی ایم سے علیٰحدگی کا اعلان کیا جبکہ اے این پی زرداری صاحب کی دوستی میں نکل گئی ۔ تاہم مولانا فضل الرحمان نے اپنی اہمیت قائم رکھنے کیلئے اس کے بعد پی ڈی ایم کو قائم رکھا۔پھر اچانک وہ وقت آگیا کہ فوج نے عمران خان کی ناجائز سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لئے اور یوں بیک وقت زرداری صاحب اور مولانا صاحب کے دل اقتدار کیلئے مچلنے لگے ، حالانکہ اصولی طور پر ناجائز اسمبلی کو دوام دینا غیراصولی فعل تھا۔

 

 

 

اپنے بلاگ میں سلیم صافی نے لکھا کہ مولانا صاحب اتنے جذباتی ہوگئے کہ پیپلز پارٹی اور (ن )لیگ کے ساتھ حکومت سازی کرتے وقت پی ڈی ایم کو بھی بھول گئے۔ اس مشاورت میں انہوں نے اپنے سینئر نائب صدر آفتاب احمد خان شیرپاؤ،شاہ اویس احمدنورانی اور دیگر ممبران سے پوچھا تک نہیں اور دونوں بڑی جماعتوں سے اپنے لئے مرکز میں بھی استحقاق سے زیادہ حصہ لیا اور پختونخوا کی گورنرشپ بھی لے اڑے۔ مجبوراً خیبر پختونخوا حکومت میں اے این پی ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں (سوائے پی ٹی آئی کے) کو نمائندگی دی گئی ، اس لئے ہر معاملے کو ایک، ایک طرف اور دوسرا ، دوسری طرف کھینچ رہا ہے ۔نتیجتاً اس وقت کی خیبر پختونخواکی نگران حکومت جو عملاًجے یوآئی کی حکومت ہے، صوبے کی تاریخ کی بدترین حکومت ثابت ہوئی۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کی حکومت تاریخ کی بدترین حکومت سمجھی جاتی تھی لیکن نگران حکومت اب اس کے گناہ بخشوا رہی ہے۔ دوسری طرف کرپشن کے بھی ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔یوں اب مسلم لیگ(ن) بھی پریشان ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔ بلاگ کے آخر میں سلیم صافی نے لکھا کہ دبئی میٹنگ پر اعتراض کرکے مولانا اس کیلئے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط بنانا اور اپنے گورنر کو بچانا چاہتے ہیں ۔

 

 

 

ورنہ تو دبئی میٹنگ پر ان کے اعتراض کا اس لئے کوئی جواز نہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں کی میٹنگ تھی۔ دوسری طرف ان کے پاس اس اعتراض کا اس لئے بھی جواز نہیں کہ جب وہ حکومت سازی میں اپنے لئے استحقاق سے زیادہ حصہ لے رہے تھے تو پی ڈی ایم کے کسی اور رہنما کو شاملِ مشاورت نہیں کیا۔ پھر مرکز اور پختونخوا میں حکمرانی کرنے میں اس قدر مگن ہو گئے کہ کئی ماہ تک پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس تک نہ بلا سکے۔ اس لئے میرے نزدیک پی ڈی ایم اتحاد عملاً ختم ہو چکا ہے۔ اس مردے گھوڑے میں اب دوبارہ جان نہیں ڈالی جاسکتی اور یہ بات واضح ہے کہ اگلے انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے مفاد کے مطابق نئی صف بندی کرے گی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں