لاہور (پی این آئی ) جب الیکشن ہوں گے تو عمران خان مع بشریٰ بی بی جیل میں ہوں گے اور کسی نہ کسی کیس میں سزا پانے کے بعد نااہل ہوچکے ہوں گے۔لوگ کچھ بھی کہیں لیکن عمران خان کے اگلے انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے راستے بند ہوگئے ہیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے اہم انکشافات کر دیئے ۔ “جیو نیوز ” میں شائع ہونے والے اپنے بلاگ “پیپلزپارٹی بمقابلہ (ن) لیگ” میں انہوں نے لکھا کہ عمران خان زیادہ سے زیادہ مستقبل کے الطاف حسین بن سکتے ہیں لیکن الطاف حسین پھر بھی آزاد ہیں اور اپنی بات سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے پہنچا سکتے ہیں لیکن یہ بات اب اظہرمن الشمس ہے کہ جب الیکشن ہوں گے تو عمران خان مع بشریٰ بی بی جیل میں ہوں گے اور کسی نہ کسی کیس میں سزا پانے کے بعد نااہل ہوچکے ہوں گے ۔
سلیم صافی نے لکھا کہ سینکڑوں کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقتاً عمران خان کے خلاف درجنوں کیسز ہیں اور ان میں نصف درجن ایسے ہیں کہ اگر’’ عمرانداروں ‘‘کی سہولت کاری نہ ہو تو ان کے ملزم سے مجرم بننے میں ایک گھنٹہ نہیں لگے گا۔ عمران خان ذاتی لحاظ سے جتنا بھی پاپولر یا مظلوم بن جائے لیکن سیاسی جماعتوں میں اصل ریڑھ کی ہڈی سیکنڈ کیڈر کے لیڈرز یا پھر ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدوار ہوتے ہیں ۔ یہی لوگ لیڈر اور کارکنوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً اگر نواز شریف یا مریم نواز صاحبہ پنڈی میں نہایت پاپولر بھی ہوں تو یہاں کے ورکرز کو وہ خود جانتے ہیں اورنہ ان سے ان کا رابطہ ہوتا ہے۔ ان کی غمی خوشی اور تھانہ کچہری کے معاملات، مقامی رہنماؤں کا درد سر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر پنڈی میں حنیف عباسی لاتعلق ہوجائے۔ وہ نہ کارکنوں کو نکالے اور نہ ووٹرز کو تو نواز شریف اور مریم نواز کی پاپولرٹی کو وہ جلسے جلوس کیلئے استعمال کرسکتے ہیں اور نہ انہیں پولنگ اسٹیشن تک لاسکتے ہیں اور یہ نظارہ ہم پنجاب کے ضمنی الیکشن کے دوران کرچکے ہیں۔ دوسری مثال الطاف حسین کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایم کیوایم پی ٹی آئی کی نسبت کئی گنا زیادہ نظریاتی تنظیم تھی۔ ایم کیوایم کے ہزاروں لوگوں کا خون بہایا گیا تھا اور ہزاروں مخالفین کا انہوں نے خون بہایا۔تب اسٹیبلشمنٹ صرف اس میں کامیاب ہوئی کہ انہوں نے الطاف حسین سے ان کے سیکنڈ ٹیئر کو کاٹ دیا ۔ جب ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے دوسرے درجے کے یہ لیڈر ان کے ساتھ نہ رہے اور الگ ایم کیوایم پاکستان بنائی تو الطاف حسین کی نوجوانوں میں مقبولیت ان کے کسی کام نہ آئی۔
کسی زمانے میں ان کے اعلان سے پورا کراچی بند ہوجاتا تھا لیکن اب ان کی دعوت پر 10 بندے نہیں نکل سکتے ۔ اب یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے جبکہ الطاف حسین کے برعکس وہ انتخابات کے وقت جیل میں قید اورشاید سزا یافتہ ہوں گے۔سلیم صافی نے مزید لکھا کہ پی ٹی آئی کے جتنے سیکنڈ یا تھرڈ رینکس کے لیڈرز ہیں ان پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کے خاص گماشتوں نے پاکستانی فوج کے ساتھ وہ کچھ کیا جو ہندوستان بھی 75 سال میں نہ کرسکا ، اس لئے انہیں اب اسی نظر سے دیکھا جائے گا جس طرح دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا عمران خان کو۔ یوں پرویز خٹک ہویا اسد قیصر سب پر یہ بات واضح کی جارہی ہے کہ اس بات کی تو گنجائش ہے کہ وہ ایک کی بجائے دوسری پارٹی میں جائیں لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی کے ساتھ رہنے کی صورت میں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو دشمن کا ساتھ دینے والے کے ساتھ کیا جاتاہے۔ اب ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے آنے والے اور اسکے سہارے سیاست کرنے والے لوگ کسی صورت عمران خان کے ساتھ کھڑے نہیں رہ سکیں گے۔ بلکہ شاید اب صرف سیاستدانوں نہیں بلکہ ’’عمرانداروں‘‘ کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا جائے گا۔ دوسری طرف عمران خان نے آرمی چیف سے ملنے کیلئے منتوں کی انتہا کردی اور ہر طرح کے سفارشی تلاش کرکے ان کی خدمت میں بھجوا دئیے ۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ملاقات کیلئے بھی تمام جتن کئے لیکن وہاں سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ اب یہاں یہ سلوک دستیاب نہیں اور وزیراعظم ہاؤس سے رجوع کریں۔سلیم صافی نے لکھا کہ اب لوگ کچھ بھی سمجھیں لیکن مجھے اور حکومت میں شامل جماعتوں کو یقین ہے کہ اگلے الیکشن کی حد تک پی ٹی آئی کا خطرہ ٹل گیا ہے چنانچہ حکومت میں شامل جماعتیں اپنی روایتی سیاست کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ یوں تو پیپلز پارٹی اور(ن) لیگ میں سرد جنگ پہلے دن سےجاری تھی لیکن اب وہ گرم ہوتی جارہی ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کو یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں مقابلہ ان دونوں کا ہوناہے ۔ اب تک صور تحال یہ ہے کہ سندھ مکمل طور پرپیپلز پارٹی کے سپرد ہے ۔ پنجاب (ن) لیگ کے سپرد ہے ۔ خیبر پختونخوا عملاً جے یو آئی کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے۔ جبکہ بلوچستان باپ پارٹی اور باپ کے باپ کے سپرد ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے طرز حکمرانی کی بدحالی سے تو اک دنیا واقف ہے ۔ پنجاب میں صورت حال بھی زیادہ تسلی بخش نہیں لیکن خیبر پختونخوا میں تو ابتری کی آخری انتہائیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو نگران حکومت بنائی ہے وہ غیرجانبدار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نہیں بلکہ ان میں پارٹی لیڈروں کے اے ٹی ایمز یا پھر مختلف پارٹیوں کے نمائندے وزیر بنائے گئے ہیں ۔ سلیم صافی نے آخر میں لکھا کہ فیصلہ کن رول استحکام پاکستان پارٹی کا ہوگا اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ (ن )لیگ کا ساتھ دیتی ہے یا پیپلز پارٹی کا؟۔ لیکن بہ ہر حال اب سیاست نیا رخ اختیار کرے گی۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی ظاہری یاری اب سرد جنگ سے گرم جنگ میں تبدیل ہو گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں