فضیلت علم اور احترام استاد، تحریر:پروفیسر فضل تنہا غرشین

عدم سے وجود، نیچر سے کلچر، اور بندہ سے خدا تک کے فاصلے کو ماپنے کے لیے کئی ذرائع بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ عام زبان میں ان فاصلوں کو “لا” اور ذرائع کو “علوم” کہا جاتا ہے۔ یعنی لا کی فہم کو علم کہا جاتا ہے۔ علم اور معلومات میں بہت نازک سا فرق پایا جاتا ہے۔ علم میں جاننے والا اور جانی گئی شے ایک وحدت میں پروئے جاتے ہیں، جب کہ معلومات میں جاننے والا اور جانی گئی شے میں حد فاصل ہوتی ہے۔ علم کی کئی اقسام ہیں۔ علت و معلول کے ذریعے لا فہمی یا علم حاصل کرنا منطق ہے،

عقل کے ذریعے فلسفہ، آلات کے ذریعے سائنس، عشق کے ذریعے تصوف، افراد و معاشرے کے ذریعے نفسیات، اعصاب و حواس کے ذریعے ادب، اور الہام، وحی اور تقلید کے ذریعے زندگی سمجھنا مذہب ہے۔
معرفت ذات اور معرفت خدا صرف علم کے ذریعے ممکن ہے۔ علم تجسس، تحقیق، تخلیق اور خود کفالت کا اصل منبع ہے۔ حلال و حرام، امن و جنگ، سود و زیاں، محبت و نفرت اور نیک و بد میں تفریق کرنے کا واحد ذریعہ علم ہے۔ علم کے ذریعے انسانوں میں خود اعتمادی، اولو العزمی، مثبت سوچ، صلہ رحمی، قوت برداشت اور دانش مندی پروان چڑھتی ہے۔ معاشی خوش حالی، سماجی انصاف، ثقافتی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور سیاسی بلوغت ان معاشروں میں پائی جاتی ہے جو علم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ علم انسان اور حیوان میں تمیز، جانوروں سے محبت، انسانوں کی عظمت، رشتوں کی قدر، معذوروں سے ہمدردی، غریبوں سے تعاون، ماحولیات کی اہمیت، اقلیت کا احترام، عورتوں کا مقام، بچوں کی تربیت، والدین سے احسان اور ہمسایوں سے حسن سلوک سکھاتا ہے۔ صحت، دولت، عزت اور شہرت کاحصول علم کے ذریعے ممکن ہے۔

زمانے میں وہی لوگ کامیاب و کامران ہیں جو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ جدیدیت کے قائل اور جدید علوم سے بہرہ ور ہوں۔ جدید علوم انسانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ تمام تر قدرتی وسائل یعنی معدنیات، سمندر، فضا، ہوا، پانی، شمسی توانائی وغیرہ کو اپنی بقا اور سلامتی کے لیے بروئے کار لاکر غربت، بےروزگاری، ناخواندگی، بیماریوں اور جرائم کا خاتمہ کر سکیں۔ جدید علوم نے دفاع، انصاف، علاج، کاروبار، سفر اور ابلاغ کے ذرائع کو آسان تر اور تیز تر کردیا ہے۔ علم کے ذریعے مادی ضروریات کے حصول کے علاوہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کی جاتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان جھوٹ، ظلم و ستم، دھوکا بازی اور جرائم سے اجتناب کرتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ فرد معاف کرنے کا ہنر، وعدہ نبھانے کا سلیقہ، مسائل حل کرنے کی صلاحیت، ذمہ داریاں اٹھانے کا عزم اور حلال رزق کمانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔

خدا انسان کی تخلیق کرتا ہے، والدین اس کی پرورش کرتے ہیں اور استاد اس کو بہتر زندگی گزارنے کا قابل بناتا ہے۔ علم کی روشنی استاد کے ذریعے پھیلتی ہے۔ عدم سے وجود، نیچر سے کلچر، اور بندہ سے خدا تک کا فاصلہ صرف استاد اور استاد کی دی ہوئی تعلیم کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے۔ استاد کامیابی کے مواقع کو لا محدود اور فہم و دانش پر اشرافیہ کی اجارہ داری کو ختم کر دیتا ہے۔ استاد بصارت کو بصیرت اور مسائل کو مواقع میں تبدیل کردیتا ہے۔ لا فہمی اور بہترین مستقبل کا دار و مدار استاد پر منحصر ہے۔ استاد خدا کی تخلیق یعنی انسانوں کو تخلیقی ہنر اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال کرتا ہے۔ استاد انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ شب کے مقابلے میں چراغ، سفال کے مقابلے میں ایاغ اور بیابان و کہسار و راغ کے مقابلے میں خیابان و گلزار و باغ تخلیق کر سکیں۔ استاد انسان کو سنگ سے آئینہ اور زہر سے نوشینہ بنانے کا بھی قابل بناتا ہے۔

علم اور استاد کا احترام خود احترامی کے مترادف ہے۔ آج بھی اگر انسانوں اور حیوانوں کے درمیان میں کوئی حد فاصل موجود ہے اور انسانوں کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے یا اگر ہمارے معاشرے میں آج بھی چند قابل تعریف اور قابل تقليد مثبت اقدار موجود ہیں تو یہ سب استاد اور علم کے بموجب ممکن ہوئے ہیں۔ استاد روایات کا امین، تہذیب کا محافظ، اقدار کا مبلغ اور نسل انسانی کا مربی ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام تر سہولیات، آسائشیں، ایجادات اور اختراعات استاد کی مرہون منت ہیں۔

خود پرستی اور مادہ پرستی کے اس دور میں دنیا حاصل علم اور حاصل استاد سے تو خوب مستفید ہورہی ہے، مگر علم اور استاد کے اصل مقام، منصب اور وقار سے بے بہرہ ہیں۔ اپنی تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود علم اور استاد کا مقام اعلیٰ ہے۔ علم اور استاد کا احترام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جن معاشروں میں علم اور استاد کی قدر نہیں ہوتی وہ اخلاقی بگاڑ، سماجی انتشار، معاشی زبوں حالی، سیاسی غلامی، مذہبی تعصب اور ثقافتی بد تہذیبی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ کہاں تک مذکورہ بالا معاشرتی برائیوں سے پاک ہے؟ کہیں علم اور استاد کی ناقدری ہماری پس ماندگی اور زوال کا سبب تو نہیں؟ ہماری بقا اور سلامتی صرف اور صرف علم اور استاد کی قدر میں مضمر ہے۔

رہبر بھی یہ، ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

close