مسترد شدہ ووٹوں کا معاملہ، کیا پیپلزپارٹی کو معاملہ عدالت میں چیلنج کرکے کامیابی مل سکتی ہے؟ سابق اٹارنی جنرل نے مایوس کن خبر سنا دی

لاہور (پی این آئی) سابق اٹارنی جنرل انور منصورخان کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ مسترد ہونے کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے انور منصور خان نے کہا کہ اگر کسی طریقے سے ووٹ قابل شناخت

ہوجائے تو وہ مسترد ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ووٹ پر کوئی نشان لگ جائے جس سے ووٹ قابل شناخت ہو تو وہ ووٹ مسترد ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 69 کے تحت معاملہ عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے2007 میں ایک کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ ووٹر کی نیت اگر کسی بھی طرح ظاہر ہوجائے تو اس کو رد کیا جا سکتا ہے اور 2013 میں بھی ایک کیس میں ایسا ہی فیصلہ دیا تھا ۔واضح رہے کہ چئیرمین و ڈپٹی چئیرمین سینیٹ الیکشن میں شکست کے بعد اپوزیشن نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ چئیرمین سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کے ووٹ غیر قانونی طریقے سے مسترد کیے گئے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ متنازعہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ہمارے پاس اب 2 راستے ہیں، ایک تو یہ کہ صادق سنجرانی کیخلاف ایوان میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے، جبکہ دوسرا یہ کہ نتائج کو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز چئیرمین و ڈپٹی چئیرمین سینیٹ الیکشن میں حکومت اپوزیشن کو اپ سیٹ شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ پہلے ہوئی پولنگ میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی 48 ووٹ حاصل کر کے چئیرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ یوسف رضا گیلانی نے 42 ووٹ حاصل کیے جب کہ یوسف رضا گیلانی کے 8 ووٹ مسترد بھی ہوئے۔ حکومتی سینیٹرز نے چئیرمین سینیٹ کا اعلان ہوتے ہی جشن منانا شروع کر دیا جب کہ اپوزیشن ارکان کی جانب سے نعرے بازی کی گئی۔ جبکہ بعد میں حکومتی اتحاد کے امیدوار مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں