اپوزیشن کے ایک ہفتہ دھرنے پر بیٹھنے کی صورت میں استعفیٰ دینے بارے سوچنے کی بات سے ثابت ہو گیا وزیر اعظم نے شکست تسلیم کر لی، بلاول بھٹو

لاہور( این این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ و زیر اعظم کا اپوزیشن کی جانب سے ایک ہفتہ دھرنے پر بیٹھنے کی صورت میں استعفیٰ دینے بارے سوچنے کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے شکست تسلیم کر لی ہے ، لانگ مارچ ہر صورت ہوگا اور ہم وزیر اعظم سے چھین کر

استعفیٰ لیں گے ، شہباز شریف سے جیل میں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے جو خبریں دی جارہی ہیں وہ درست نہیں ہیں ، شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ کیلئے آئین میں تبدیلی کرنا پڑے گی اور کیا عمران خان کے پاس ا س کی استعداد ہے ، حکمران تو نالائق ہیں ،عدالتیں انہیں کہیں گی آئین پڑھو وہاں کیا لکھا ہے ، اتحادیوں کو جوڑ کر حکومت کو زبردستی کھڑا کیا گیا ہے لیکن حکومت کی نا لائقی او رنا اہلی کا بوجھ عوام کیوں اٹھائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن دلاو ر بٹ کے انتقال پر ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دلاور بٹ نے گلی محلے کے غریب کی آواز کو ایوانوں تک پہنچایا، دلاور بٹ ہر کڑے وقت میں ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بینظیر بھٹو شہید کے شانہ بشانہ رہے ، انہوں نے ہر آمر کے دور میں اس کا مقابلہ کیا ۔ ان کے انتقال سے پیپلز پارٹی کے فلسفے ، نظریے او ر سب سے بڑھ کر کمزور طبقات کو جو نقصان ہوا ہے اس خلا کو پر کرنا مشکل ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت کو زمینی حقائق کا ادراک نہیں ، یہ عوام کے دکھ درد او رپریشانی کو محسوس نہیں کر رہے جس کی وجہ سے عوام کی اس نظام سے ناراضگی اور نفرت بڑھ رہی ہے ، آج عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ، ملک میں تاریخی مہنگائی ہے لیکن کٹھ پتلی کے پاس

ان مسائل اور پریشانیوں کے حل کا کوئی جواب ہی نہیں اور وہ بے بس ہے ، وزیر اعظم کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں اس لئے انہیں استعفیٰ دیدینا چاہیے ، پیپلز پارٹی کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا حل ہے اور ہم نے ماضی میں یہ کر کے دکھایا ہے ، جب پوری دنیا میں معاشی بحران تھا تو ہم نے اپنے عوام اور غریبوں کو لاوارث نہیں چھوڑا ، ہم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوںاور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ مشکل حالات میں ریاست آپ کے ساتھ کھڑی ہے اور آپ کی مدد کے لئے تیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے زراعت کو اہمیت دی تھی کیونکہ جب کسان خوشحال ہوگا تو وہ پاکستان کی عوام کو خوراک کھلا سکتا ہے ، آج حکومت کسانوں سے ان کی اجناس نہیں خرید رہی اور باہر سے درآمد کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ تو ہونا ہی ہونا ہے ، پی ڈی ایم استعفوں کا کارڈ کب اور کیسے کھیلے گی اس کا متفقہ فیصلہ ہونا ہے ۔ جو غریب اور بیروزگار ہیں وہ حکومت کے لانگ مارچ میں اپوزیشن کے ساتھ جائیں گے ، حکومت نے جنہیں ملازمتوں سے نکالا ہے وہ ہمارے ساتھ ہوں گے ، جو دوائی او ردو وقت کی روٹی نہیں خرید سکتے وہ بھی اپوزیشن کے ساتھ ہیں ، ہم عوام کی طاقت سے وزیر اعظم سے چھین کر استعفیٰ لیںگے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پی ڈی ایم کا حکومت

سے کسی سطح پر کوئی ڈائیلاگ نہیں ہو رہے ، ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس کا وقت گزر چکا ہے ، جب کٹھ پتلی چلا جائے گا تو پھر طریق کار طے ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلی حکومت کو اتحادیو ں کے ذریعے زبردستی کھڑا رکھا گیا ہے ، اس حکومت کی نا اہلی اور نالائقی کا بوجھ عوام کیوں اٹھائیں۔ انہوںنے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم 1973ء کے آئین او رجمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، سیکرٹ بیلٹ عوام کا حق ہے ، اسی طرح سینیٹ انتخابات کیلئے سیکرٹ بیلٹ ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کا جمہوری حق ہے تاکہ کوئی قوتیں انہیں دبائو میں نہ لا سکیں ۔ آئین کو تبدیل کرنے کے لئے ایک طریق کار درکار ہے عمران خان جسے اپنانا چاہتا ہے اس کے لئے اس کے پاس استعداد نہیں ہے ۔حکمران تو نالائق ہیں ، یہ عدالت میں جائیں گے تو عدالت انہیں کہے گی آئین پڑھو وہاں کیا لکھا ہے ، سیکرٹ بیلٹ سے ووٹر کو تحفظ ملتا ہے اور یہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر گڑ بڑ ہوئی تھا ہمیں جس سینیٹر پر شک تھا وہ چلا گیا ، احتساب ہونا چاہیے ۔ انہوں نے شہباز شریف سے ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ پولیس کی موجودگی میں ایک انداز اور طریقے سے بات ہوتی ہے ۔ میڈیا میں غلط فہمی اور پراپیگنڈا آ رہا ہے ۔ میڈیا میں جو باتیں ہو رہی ہیں

ایسی باتیں پولیس کے سامنے نہیں ہو سکتیں ، اس ملاقات میں اتحاد پر زور دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم بہت بڑا فورم ہے اس میں گیارہ جماعتیں شامل ہیں اور ہم مل کر حکمت عملی بناتے ہیں ۔ اپوزیشن نے کبھی یہ نہیں کہا کہ سلیکٹڈ سے نہیں سلیکٹرز سے بات ہو گی ۔ جب وزیر اعظم کٹھ پتلی ، سپیکر کٹھ پتلی او روزیر اعلیٰ کٹھ پتلی ہو تو پھر قومی ڈائیلاگ کیسے ہو سکتا ہے یہ ممکن نہیں ہے ۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے کیونکہ عوام بہت تنگ او رپریشان ہیں اور اسی سے ملک کے مسائل کا حل نکلے گا ۔ انہوں نے وزیر اعظم کے اس بیان کہ اپوزیشن اسلام آباد میں ایک ہفتہ دھرنا دے میں استعفے کا سوچوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم کو جب بھی چیلنج دیا وہ بھاگ گیا ۔ وزیر اعظم کی بات کا مطلب ہے کہ اس نے ہار مان لی ہے ،ہم بتا دیں کہ ہم استعفیٰ چھین کر لیں گے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں