افغان صدر اشرف غنی پر کبھی اعتماد نہیں تھا،ٹرمپ

افغانستان سے انخلا کا فیصلہ اور طالبان سے معاہدہ کرنے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہیں افغان صدر اشرف غنی پر کبھی اعتماد نہیں تھا۔29 فروری 2020 کو ٹرمپ کے دور میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی تقریب میں افغان طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر اور امریکاکی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے معاہدے پر دستخط کیے۔دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہونا تھا جب کہ اس کے جواب میں طالبان نے ضمانت دی تھی کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔اسی معاہدے کے تحت امریکی افواج نے 11 ستمبر 2021 تک مکمل انخلا کا اعلان کیا جس کے بعد حالیہ مہینوں میں طالبان نے تیزی سے پیش قدمی کی اور کابل سمیت اہم صوبوں کا کنٹرول حاصل کرلیا۔15 اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوئے تو اشرف غنی فرار ہوگئے جو اب متحدہ عرب امارات میں اپنی فیملی کے ساتھ موجود ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ میں کھل کر کہہ چکا ہوں کہ اشرف غنی فریبی اور دھوکے باز ہیں، اشرف غنی اپنا تمام وقت امریکی سینیٹرز کی مہمان نوازی میں گزراتے رہے،امریکی سینیٹرز اشرف غنی کی جیب میں تھے اور یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ شک ہے اشرف غنی افغانستان سے نکلتے وقت اپنے ساتھ کیش لےکر گئے ہیں، میرےشک کی وجہ اشرف غنی کا لائف اسٹائل اور اُن کی رہائش گاہیں ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات کے دوران ملاعبدالغنی برادرکوبتا دیا تھا کہ امریکی انخلا مشروط ہوگا، ملا برادر کو کہا تھا کہ اگر انخلا کے دوران امریکی یا اتحادی افواج پر حملہ ہوا ت وطالبان رہنما کے گاؤں پربمباری ہوگی۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ میں چاہتا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاہدہ طے پا جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں