ترکی نے کابل کے ہوائی اڈے کا چارج سنبھالنے کیلئے امریکا کے سامنے کیا شرط رکھ دی؟

اسلام آباد (پی این آئی) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک افغان دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے کا چارج سنبھال سکتا ہے تاہم اس کے لیے نیٹو کے اتحادی ملک امریکا کو لوجیسٹکس یا رسد اور مالی امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چند دیگر شرائط پورا کرنا ہوں گی۔رجب طیب ایردوآن نے شمالی قبرص کے دارالحکومت نکوسیا سے ایک ٹیلی وژن خطاب میں صحافیوں سے کہا، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کابل ہوائی اڈے کو چلانے کے بارے میں اس وقت ہم معاملات کو ”مثبت انداز سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ تاہم ایردوآن کا مزید کہنا تھا،” ہم چاہتے ہیں کہ امریکا چند شرائط پوری کرے۔‘‘ ترک صدر نے اپنے بیان میں خود ہی ان شرائط کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا، ” یہ شرائط ہیں کیا؟ سب سے پہلے امریکا سفارتی تعلقات میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو۔دوسرے یہ کہ واشنگٹن ہمارے لیے رسد کے ذرائع کو متحرک کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی اور انتظامی امور میں ہمیں گوناگوں مسائل کا سامنا ہوگا اور ان سے نمٹنے کے لیے امریکا کو ترکی کے لیے ضروری حمایت کا یقین دلانا ہوگا۔‘‘ رجب طیب ایردوآن نے مزید کہا کہ اگر ان شرائط کو پورا کیا جاسکتا ہے تو ،” ہم بحیثیت ترکی کابل ہوائی اڈے پر کام کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘‘ترک صدر نے افغانستان کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے بارے میں نکوسیا میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا اور ساتھ ہی انقرہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کو دہراتے ہوئے کہا،” افغانستان کا اب ایک نیا دور ہے۔طالبان، جو امریکا کے ساتھ کچھ بات چیت کر چُکے ہیں، انہیں اب ان معاملات کے بارے میں ترکی کے ساتھ مذاکرات کرنے میں زیادہ راحت و اطمینان محسوس کرنا چاہیے۔‘‘ ترک صدر ایردوآن نے وثوق کے ساتھ کہا ،” مجھے یقین ہے کہ ہم کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔‘‘گزشتہ ہفتے طالبان نے ترکی کی طرف سے کابل ایئرپورٹ کا چارج سنبھالنے کی پیشکش کو ‘قابل مذمت‘ قرار دیا تھا۔طالبان کا یہ رد عمل دراصل ایردوآن کی طرف سے سخت گیر موقف رکھنے والے اسلام پسند طالبان گروہ کے ساتھ مذاکرات کے منصوبے کے بارے میں دیے گئے بیان کے بعد سامنے آیا تھا۔ گرچہ طالبان کی طرف سے انقرہ کی اس پیشکش کو پہلے ہی رد کیا جا چُکا ہے، تب بھی ترک صدر نے’ اپنی نیک خواہشات‘ کا اظہار کیا تھا۔استنبول میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا، اللہ کی رضا سے، ہم دیکھیں گے کہ طالبان کے ساتھ ہماری یہ بات چیت ہمیں کس رُخ لے جاتی ہے۔‘‘ ترکی امریکا کے دفاعی اہلکاروں کے ساتھ اپنی اس پیشکش کے بارے تمام تر مدد اور تعاون فراہم کرنے کے سلسلے میں ایک عرصے سے مذاکرات کر رہا ہے۔یاد رہے کہ کابل ایئرپورٹ کے نظام کو محفوظ، مستحکم اور فعال رکھنے کا عمل جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں سفارتی موجودگی برقرار رکھنے کے تناظر میں کلیدی اہمیت کا حامل اقدام ہے۔خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب عشروں سے افغان سرزمین پر موجود مغربی طاقتوں کے فوجیوں کے انخلا کا عمل حتمی طور پر مکمل ہونے والا ہے۔ترکی نے اپنے سینکڑوں فوجی افغانستان میں تعنیات کر رکھے ہیں تاہم ایک ترک سرکاری اہلکار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ افغانستان میں موجود ترک فوجی ‘جنگی سرگرمیوں کا حصہ نہیں ہیں‘۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں