نیویارک(آن لائن )اقوامِ متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 90 کروڑ ٹن سے زیادہ کھانے کی اشیا ضائع کر دی جاتی ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ماحول سے متعلق پروگرام کے فوڈ ویسٹ انڈیکس یعنی کھانے کی اشیائ ضائع کرنے کی فہرست میں یہ بتایا گیا ہے کہ
دکانوں، گھروں اور رہیسٹورانٹ میں موجود 17 فیصد کھانا کوڑے دان میں جاتا ہے۔ اس میں سے 60 فیصد شرح گھروں میں ضائع کیے گئے کھانے کی ہے۔ تاہم برطانیہ سمیت کئی ممالک میں کووڈ 19 کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث گھروں میں کھانے کے ضیاع میں کمی دیکھی گئی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ عالمی مسئلہ، ماضی میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ بڑا اور سنگین ہے۔ایک برطانوی فلاحی ادارے راپ سے منسلک رچرڈز سوانل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال 923 ملین ٹن ضائع کیے جانے والے کھانے کو کم از کم چالیس ٹن کے 23 ملین ٹرکوں میں بھرا جا سکتا ہے، یہ اتنے زیادہ ٹرک ہیں کہ انھیں زمین کے گرد سات مرتبہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ایک طرف تو کروڑوں ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے لیکن دوسری جانب صرف سنہ 2019 میں 690 ملین لوگ بھوک سے بری طرح متاثر ہوئے۔ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں بھوکے افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔اسے پہلے صرف امیر ممالک کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا جہاں صارفین ضرورت سے زیادہ کھانا خریدتے ہیں۔ لیکن اس نئی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں کھانا بڑی تعداد میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس تحقیق میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ مثلاً اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ مسئلہ کس طرح امیر اور غریب ممالک کو متاثر کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر
اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کھانا جان بوجھ کر ضائع کیا جا رہا ہے یا پھر ایسا غیر ارادی طور پر ہو رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کی مارٹینا اوٹو کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا لیکن کم آمدنی والے ممالک میں توانائی کے مسائل کی وجہ سے کولڈ چین کا عمل پوری طرح مستحکم نہیں ہے۔کولڈ چین، کھانے پینے کی اشیائ کو ایک سے دوسری جگہ منتقلی کے دوران، ٹھنڈا رکھنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ضائع ہونے والی خوارک میں کھانے کے قابل اور نہ کھانے کے لائق اشیا کی تفصیل صرف امیر ممالک سے حاصل کیے گئے ڈیٹا میں ہے۔مارٹینا اوٹو کا کہنا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں کھانے کے قابل اشیا کو ضائع کرنے کی شرح بہت کم ہو گی۔ لیکن انھوں نے کہا کہ دنیا ان سارے ذرائع کو پھینک رہی ہے جن سے کھانا بنایا جاتا ہے۔ اس سال ماحول سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے انوائرومنٹ پروگرام کے ڈائریکٹر اینگر اینڈرسن اس موقف پر زور دے رہے ہیں کہ تمام ملک کھانا ضائع کرنے کے مسئلے سے نہ صرف نمٹنے کا وعدہ کریں بلکہ سنہ 2030 تک اس شرح کو آدھا کر دیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم ماحول میں تبدیلی، آلودگی اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو حکومتوں اور شہریوں کو کھانا ضآئع کرنے کے مسئلے سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔‘صرف برطانیہ میں ہر گھرانہ اوسطاً سالانہ
سات سو پاؤنڈ کی بچت کر سکتا ہے اگر وہ صرف وہی اشیا خریدیں جن کی انھیں ضرورت ہے۔لاک ڈاؤن میں کھانے پینے کی اشیا ضائع کرنے کی شرح میں سنہ 2019 کے مقابلے میں بیس فیصد کمی آئی ہے۔ فلاحی ادارے ریئپ کے مطابق ضرورت کے مطابق مختلف دنوں اور خوراک کا تخمینہ لگا کر کھانا بنانے کی وجہ سے لوگوں نے بہت کم خوراک ضائع کی۔ لیکن لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی اس میں تیزی سے اضآفہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے معروف شیف اور شوقیہ کھانا بنانے والی شخصیات نے اپنے سوشل میڈیا پر کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے شوز اور پوسٹ کر رہے ہیں۔برطانوی شیف نادیہ حسین فلاحی ادارے ریئپ کے ساتھ مل کر کھانا ضائع کرنے سے بچنے کی مختلف تراکیب بتا رہی ہیں۔اٹیلین شیف اور مشلن سٹار ریسٹارانٹس کے مالک مسیمو بوٹرا کو اقوامِ متحدہ نے اپنا سفیر متعین کیا ہے تا کہ وہ خوراک کو ضائع کرنے کے عمل کے خلاف متحرک ہوں۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں