کورونا ویکسین کے مارکیٹ میں آنے کے بعد ماسک اور سینی ٹائز کے استعمال کا کیا ہو گا؟

لندن(پی این آئی)کورونا ویکسین کے مارکیٹ میں آنے کے بعد ماسک اور سینی ٹائز کے استعمال کا کیا ہو گا؟اہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اٹھائے جانے والے حفاظتی انتظامات جیسے ماسک پہننا، سماجی دوری اور ہاتھوں کو دھونے جیسے اقدامات ویکسین آنے کے بعد بھی برقرار رہیں گے۔ ویکسین

100 فی صد مفید نہیں ہو گی۔وانڈربلٹ یونی ورسٹی میڈیکل سینٹر میں وبائی امراض کے پروفیسر ولیم شافنر نے امریکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ویکسین وائرس کے خلاف زرہ بکتر نہیں ہو گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی انفلوئینزا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین حالیہ برسوں میں 60 فی صد تک کامیاب رہی ہے جب کہ اس دوران اس کی افادیت 10 فی صد بھی رہی ہے۔امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کورونا وائرس کی ویکسین کے مفید ہونے کا معیار کم سے کم 50 فی صد رکھا ہے۔ایف ڈی اے کے لیے ماضی میں کام کرنے والے چیف سائنسدان جیسی گڈمین کے بقول جزوی طور پر مفید ویکسین زیادہ خطرے والے طبقات کے لیے سود مند ہو گی۔ جیسے فرنٹ لائن ورکر جو ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں یا جنہیں صحت کی تکالیف ہیں۔ مگر یہ تمام آبادی کے لیے مفید نہیں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ کہ ظاہر ہے کہ ایسی ویکسین آپ 30 کروڑ افراد کو نہیں دیں گے۔ سب کو ویکسین دے بھی دی گئی تو بھی وائرس کے خلاف مناسب مدافعت موجود نہیں ہو گی جو وائرس کو پھیلنے سے روک سکے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جزوی طور پر کارآمد ویکسین بھی اس طرح کافی مفید ہو سکتی ہے کہ جو لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہوں ان کی علامات زیادہ شدید نہ ہوں اور انہیں اسپتال نہ جانا پڑے۔مثلاً جو لوگ فلو کی ویکسین لیتے ہیں انہیں فلو ہو بھی جائے تو ان کی علامات زیادہ شدید نہیں ہوتی ہیں۔ مگر گڈمین کے مطابق دوسری طرف “یہ خطرہ ہے کہ جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہو وہ غیر ارادی طور پر وائرس پھیلانے کا سبب بن رہے ہوں۔”کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی ویکسین جو لوگوں کو بیمار ہونے سے تو بچائے مگر وائرس کے پھیلاؤ کو نہ روکے ایک خطرناک صورتِ حال کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسی ویکسین ایسا مدافعتی ردِعمل پیدا کرتی ہے جس سے علامات تو نظر نہیں آتیں مگر وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔یونی ورسٹی آف پٹس برگ کے سینٹر فار ویکسین ریسرچ کے ڈائریکٹر پاؤل ڈپریکس کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین بچوں، بڑوں، اور بوڑھوں پر کیسے اثر کرتی ہے اس میں بہت زیادہ فرق ہو گا، جیسے انفلوئینزا کی ویکسین معمر افراد پر زیادہ کارآمد نہیں ہوتی۔انکا کہنا تھا کہ جن افراد کو صحت کے دیگر مسائل ہوتے ہیں، ان کے بارے میں بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان پر ویکسین بہتر اثر کرتی ہے یا ان کے لیے مضر ہوتی ہے۔ یہی صورتِ حال مختلف نسلی گروہوں سے متعلق ہوگی۔پاؤل ڈپریکس کا مزید کہنا تھا کہ ہم لوگ اپنے ماسک کب اتار سکتے ہیں اس بات پر منحصر ہے کہ کتنے افراد کو ویکسین کی خوراک مل چکی ہے۔اس معاملے میں ہدف یہ ہے کہ اتنے افراد کو ویکسین مل جائے کہ وائرس کو کسی کو متاثر کرنے کے لیے لوگ ڈھونڈنے مشکل ہو جائیں۔ اس حالت کو ’ہرڈ امیونٹی‘ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں