نیویارک(پی این آئی)امریکہ کے ایک سینیٹر نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کی ان کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جن کا مقصد کورونا وائرس کی موثر ویکسین تیار کرنا ہے۔اس بیان نے امریکہ اور چین کے درمیان کورونا وائرس کے معاملے پر جاری لفظی جنگ کو ایک مرتبہ پھر بھڑکا دیا ہے۔سینیٹر
رِک سکاٹ کا کہنا تھا کہ ’ہماری انٹیلیجینس‘ سے موصول ہونے والے شواہد اس امر کی تائید کرتے ہیں۔ تاہم انھوں نے ان شواہد کے حوالے سے مزید کچھ نہیں بتایا۔دوسری جانب چین نے اپنے وائرس سے متعلق اقدامات کے دفاع کے لیے ایک دستاویز جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس نے چار جنوری کو امریکہ کو کورونا کے حوالے سے بریف کرنا شروع کر دیا تھا۔اتوار کو کورونا کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں کورونا کے مصدقہ متاثرین کی تعداد اب لگ بھگ 70 لاکھ ہو چکی ہے۔امریکہ کی ریاست فلوریڈا سے منتخب ہونے والے ریپبلیکن سینیٹر رک سکاٹ نے چین پر نئے الزامات بی بی سی کے اینڈریو مار شو میں بات کرتے ہوئے عائد کیے ہیں۔رک مارٹ دیگر کئی سینیٹ کمیٹیوں کے علاوہ ’آرمڈ سروسز اینڈ ہوم لینڈ سکیورٹی‘ کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ویکسین کی تیاری میں جلدی کرنا ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس چند ایسے شواہد ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ کمیونسٹ چین ہماری ویکسین تیار کرنے کی کوششوں کو تہہ و بالا کرنے اور انھیں آہستہ کرنے کی کوششوں میں مگن ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’چین یہ نہیں چاہتا کہ ہم (امریکہ)، یا انگلینڈ یا یورپ اُن سے ویکسین کی تیاری میں بازی لے جائیں۔ چین نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ امریکہ اور دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں کی ہر معاملے میں مخالفت کرے گا۔‘سینیٹر سکاٹ کو صدر ٹرمپ کا بہت بڑا حامی سمجھا جاتا ہے۔ جب انھوں نے یہ الزامات عائد کیے تو ان سے سوال پوچھا گیا کہ اس کے شواہد کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اس حوالے سے ہمارے پاس شواہد ’انٹیلیجینس کمیونٹی اور مسلح افواج‘ سے آئے ہیں۔انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ’اگر انگلینڈ یا امریکہ پہلے ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ اسے پوری دنیا کے ساتھ شیئر کریں گے مگر اگر چین نے پہلے ویکسین بنا لی تو وہ ایسا نہیں کرے گا۔‘ٹرمپ انتظامیہ اس وبا کے ابتدا ہی سے چین پر الزامات عائد کرتا آیا ہے اور یہ الزامات زیادہ تر چین کی جانب سے وبا کو موثر انداز میں کنٹرول نہ کرنے کے حوالے سے ہیں۔صدر ٹرمپ عموماً اس وائرس کو ’چائنا وائرس‘ کا نام دیتے رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس وائرس کی ابتدا چین کے شہر ووہان میں ایک لیبارٹری سے ہوئی تھی۔امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے پاس ’بڑی تعداد میں ایسے شواہد‘ ہیں کہ اس وائرس کی ابتدا چینی لیبارٹری میں ہوئی تاہم چین ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔دوسری جانب ’فائیو آئیز الائنس‘ جس میں امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہے پہلے ہی کہہ چکا ہے اس الزام کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح عالمی ادارہ صحت بھی اس الزام کی تردید کر چکا ہے۔صدر ٹرمپ کا دوسرا جھگڑا عالمی ادارہ صحت کے ساتھ ہے۔ وہ اس عالمی ادارے سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کر چکے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او چین کا دُم چھلا ہے۔ٹرمپ نے چینی عہدیداروں پر اس وائرس کو ابتدا میں دنیا سے چھپانے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ چین اس بیماری کو پھیلنے سے روک سکتا تھا۔رواں ہفتے انھوں نے چین سے 16 جون سے مسافروں کی پروازوں پر پابندی لگانے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد بیجنگ نے کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی ہوائی سفر پر پابندیوں میں
نرمی کرے گا۔پھر اس تمام معاملے میں امریکہ، چین تجارتی تنازع بھی پس منظر میں موجود ہے۔ یہ تنازع اس وقت گھمبیر صورت اختیار کر گیا تھا جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سامانِ تجارت سینکڑوں اربوں ڈالر مالیت کے محصولات عائد کیے۔چین نے ابھی تک سینیٹر سکاٹ کے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے تاہم چین کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ چین نے امریکہ کو اس وائرس کے بارے میں چار جنوری سے آگاہ کرنا شروع کیا تھا۔چین کا کہنا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب یہ وبا دنیا کے زیادہ تر ممالک کے لیے انجان تھی۔اس دستاویز میں ایک ٹیلیفون بریفنگ کا تذکرہ ہے جو چین کے سینیٹر فار ڈیزیز کنٹرول نے امریکہ میں وباؤں سے نمٹنے کے ادارے کو چار جنوری کو دی تھی۔چین کا کہنا ہے اس نے کھلے، شفاف اور ذمہ دارانہ انداز میں کام کیا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے بھی چین کے اقدامات کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ چین نے وبا کے پھیلاؤ کو آہستہ کرنے میں دنیا کی مدد کی۔ خاص طور پر اس وقت جب چین نے جلد ہی وائرس کے جینیٹک کوڈ کی تفصیلات شیئر کیں۔چین کی وزارت خارجہ بارہا ٹرمپ انتظامیہ پر یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ وہ بحران سے نمٹنے کے اپنے مسائل سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔جبکہ چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کووڈ 19 امریکہ کا آغاز امریکہ میں ہوا تھا، تاہم انھوں نے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔دنیا بھر کے درجنوں گروپ کورونا کی ممکنہ ویکسینز کی تحقیق کر رہے ہیں، جن میں کچھ کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔انسانی آزمائش کا پہلا ڈیٹا مثبت ثابت ہوا ہے جس میں کورونا مریض کے جسموں میں وائرس سے لڑنے والے اینٹی باڈیز پیدا ہوئے۔تاہم فی الحال کوئی یہ نہیں جانتا کہ یہ ویکسینز درحقیقت کتنی موثر ہوں گی۔کسی نئے وائرس کے ویکسین کی تیاری میں عموماً برسوں درکار ہوتے ہیں تاہم طبی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ویکسین سنہ 2021 کے وسط تک تیار ہو جائے گی مگر اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں