اربن فلڈنگ، بڑے شہر میں بڑی تباہی

کراچی میں تیز بارشوں کے نتیجے میں سیلابی صورتحال کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ 1990 سے لے کر 2025 تک شہر بارہا مون سون بارشوں کے بعد اربن فلڈنگ کا شکار ہوا، مگر 35 سال گزرنے کے باوجود شہری حکومت نکاسی آب کے نظام کو بہتر نہ بنا سکی۔

خصوصاً شارع فیصل اور آئی آئی چندریگر روڈ ہر بارش میں ڈوب جاتے ہیں جو انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کا واضح ثبوت ہیں۔ 1992 میں کلفٹن اور باتھ آئی لینڈ میں بارش کے بعد کئی دنوں تک پانی کھڑا رہا جبکہ شہر کے نشیبی علاقے بھی متاثر ہوئے۔ ستمبر 2011 میں 140 ملی میٹر بارش کے نتیجے میں شہر کی بڑی شاہراہیں زیرِ آب آگئیں۔

2020 میں 27 اگست کو 230 ملی میٹر سے زائد بارش نے کراچی کو بدترین سیلاب کا سامنا کرایا، شارع فیصل اور چندریگر روڈ مکمل طور پر ڈوب گئے، 40 سے زائد افراد جاں بحق اور اربوں کا نقصان ہوا۔ 2022 میں مسلسل بارش نے ایک بار پھر ٹریفک اور کاروباری سرگرمیاں معطل کر دیں۔ فروری 2024 میں غیر معمولی بارش کے باعث 700 فیڈرز ٹرپ ہوئے اور مرکزی شاہراہیں ڈوب گئیں۔ ماہرین کے مطابق ناکارہ نکاسی نظام، بے ہنگم تعمیرات، برساتی نالوں پر قبضے اور موسمیاتی تبدیلی کراچی میں اربن فلڈنگ کی بڑی وجوہات ہیں۔

2025 کے مون سون سے پہلے ہی ماہرین اور این ڈی ایم اے نے خبردار کیا تھا کہ اگر نالوں کی صفائی نہ کی گئی تو شہر دوبارہ ڈوب سکتا ہے۔ بالآخر 19 اگست 2025 کی بارش نے ان خدشات کو درست ثابت کیا اور ایک بار پھر شارع فیصل اور آئی آئی چندریگر روڈ سیلابی منظر پیش کرنے لگے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close