آئینی ترامیم کے معاملے پر قائم کی گئی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے منظور کیا گیا ڈرافٹ (مسودہ) سامنے آ گیا ،خصوصی کمیٹی نے جس آئینی ترامیم کے ڈرافٹ کی منظوری دی اس میں یہ تجویز شامل ہے کہ کابینہ کی صدر یا وزیر اعظم کو بھیجی گئی سفارشات پر عدالت نہیں پوچھ سکے گی، آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کر کے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھائی جائے گی۔اس میں جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے 4 سینئر جج شامل کرنے کی تجویز ہے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کے نامز دو کیل جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 2، 2 ارکان شامل کرنے کی بھی تجویز ہے۔تجویز دی گئی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کا تعلق حکومت اور اپوزیشن سے ہوگا، جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور شریعت کورٹ میں ججز کے مجاز ہوگا۔
مزید برآں، آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچ کے ججز کا تقرر 3 سینئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ایک کوچیف جسٹس مقرر کیا جائے گا، چیف جسٹس کے تقرر کیلیے پارلیمانی کمیٹی 12 رکنی ہوگی، کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی جبکہ 4 ارکان سینیٹ کے شامل ہوں گے، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
مجوزہ 26ویں آئینی ترامیم کے نئے مسودے میں 26 ترامیم شامل ہیں۔ نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز ہے۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز ہوں گے، آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح کیلیے کیسز آئینی بینچز میں جائیں گے۔
اس میں تجاویز بھی شامل ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا، چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں 4 سینئر ترین ججز شامل ہوں گے، وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے، 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد وکیل 2 سال کیلیے کمیشن ممبر ہوگا، 2ارکان قومی اسمبلی اور 2 ارکان سینیٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے، سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم بھی کمیشن کا ممبر ہوگا۔
حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز دی۔ پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف کاسٹ کیا گیا ووٹ شمار کیا جائے گا، ووٹ شمار ہونے کے بعد پارٹی سربراہ رکن کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔حکومت کی آرٹیکل 111 میں ترمیم کی تجویز ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی صوبائی اسمبلی میں بات کر سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں