اسلام آباد(پی این آئی)کون بنے گا وزیر اعلیٰ پنجاب؟ فیصلہ آج ہوگا، مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہٰی پھر آمنے سامنے ہیں۔ دونوں طرف سے کامیابی کے پیشگی دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج 4 بجے طلب کیا گیا ہے، پنجاب اسمبلی میں مہمانوں کا داخلہ بند ہوگا، میڈیا پریس گیلری سے کوریج کرے گا۔
موبائل فون لے جانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے نومنتخب 15، مسلم لیگ ن کے 3 اور ایک آزاد رکن نے حلف اٹھا لیا جو ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کو چیئرمین عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے پی ٹی آئی اور ق لیگ پنجاب کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں 186 ارکان شریک ہوئے۔ اس حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ لاہور کے مقامی ہوٹل میں پی ٹی آئی اور ق لیگ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں 186 اراکین شریک ہوئے۔ دوسری جانب ن لیگ کی جانب سے حتمی نمبرز جاری نہیں کیے گئے البتہ گزشتہ روز عطا تارڈ کا کہنا تھا کہ ان کے تعداد 180 کے قریب ہیں۔ 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن کے بعد پنجاب میں اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہو گیا، پی ٹی آئی کے 178 اور مسلم لیگ ق کے10ارکان کو ملا کر اپوزیشن ارکان کی تعداد188ہوگئی۔
ضمنی الیکشن میں4 نشستوں پر کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کے پنجاب میں168ارکان ہوگئے تاہم ایک رکن نے ابھی حلف نہیں اٹھایا ہے اور اس کا ووٹ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ اگر اس رکن نے حلف اٹھالیا تو ن لیگ168، پیپلزپارٹی7، آزاد 3 اور راہ حق پارٹی کے ایک ووٹ کےساتھ حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد179بنتی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں آج ہونے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو خط لکھ کر سکیورٹی کا مطالبہ کردیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی حدود اور ایوان میں بھی پولیس تعینات کی جائے ، تمام سکیورٹی انتظامات یقینی بنائے جائیں تاکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق وزیراعلیٰ کا انتخاب کرایا جاسکے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ آصف زرداری، شہباز شریف اور فضل الرحمان پنجاب اسمبلی میں پیسہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں، اگر چوری کے پیسے سے مینڈیٹ چوری ہوا تو کوئی عوامی رد عمل کو کنٹرول نہیں کرسکے گا، پھر جو ہوگا اس کے ذمے دار وہ نہیں ہوں گے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ وہ دن چلے گئے کہ اسٹیبلشمنٹ جس کی مدد کرے وہ الیکشن جیتے، موجودہ الیکشن کمشنر کی موجودگی میں کسی صورت شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے ، سب کو پتا ہے تحریک انصاف کے پاس نمبرز پورے ہیں ، لیکن اپنے لوگوں کو اس لیے ہوٹل میں ٹھہرا رہے ہیں کہ خدشہ ہے ان پر یہ کیسز بنا دیں گے۔
ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ کیا قیامت آجائے گی اگر پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب بن جائے گا، بزدار بھی چار سال رہا ہے، ہم نے ہر طرح کی زیادتی برداشت کی ہے، آج پتا چل جائے گا کہ کسی ایم پی اے کو روکا گیا ہے یا نہیں ؟ پرویز الہیٰ کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی کہانی ختم، جو مرضی کرلیں ، یہ گیم ہار چکے ہیں، جس نے بھی شہباز شریف کو سپورٹ کیا ان سب کا بیڑا غرق ہوگیا۔ پرویز الہٰی نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کو نقب لگانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی، اکثریت ہمارے ساتھ ہے ، شہباز شریف کے زیرِ سایہ حمزہ شہباز نے جو کیا وہ تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھا جائے گا۔ یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔ دوران سماعت یہ بات سامنے آئی کہ تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ کے متفقہ امیدوار پرویز الہٰی اور ن لیگ کے حمزہ شہباز نے 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب پر اتفاق کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے زبانی حکم میں کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن اب 22 جولائی کو ہوگا اور اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ نمائندہ جیو نیوز کے مطابق 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن ’رن آف‘ کی طرز پر ہوگا یعنی جو بھی امیدوار زیادہ ووٹ لے گا وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوجائے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں