اسلام آباد(پی این آئی) آئینی صورتحال پر ازخود نوٹس۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئےکہا کہ آج ساڑھے 7 بجے فیصلہ سنائیں گے۔۔۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ آئین 10، 12 صفحوں کی کتاب ہے جسے کسی بھی وقت پھاڑ سکتاہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تقریرناکریں، ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ کل ٹی وی پربھی دکھایا گیاکہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دیں۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیا کر رہے ہیں پنجاب میں آپ لوگ؟ مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران اسمبلی کہاں جائیں جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، خود فریقین آپس میں بیٹھ کرمعاملہ حل کریں، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔صدر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے،
جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیاموجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں، اگرپارلیمنٹ میں کوئی غیرآئینی حرکت ہو رہی ہے تو کیا اس کا کوئی حل نہیں؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگرپارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیرآئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی دادرسی نہیں ہو سکتی؟ جس پر علی طفر نے بتایا کہ برطانیہ کی ہاؤس آف کامن میں ایک ممبرکو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟
جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججزکے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسےہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کی چاردیواری کے اندرکا معاملہ ہے؟ کسی اقدام کے نتائج کا اثرپارلیمنٹ سے باہر ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا انتخاب یا تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے؟صدر مملکت کے وکیل نے کہا کہ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتاہے، آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے،
اگر ججز میں تفریق ہو، وہ ایک دوسرےکو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت کو خود معاملہ نمٹانا ہے، وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے، اس کو اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹرمنتخب کرنا ہے، وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی توڑنے کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا، جس پر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، عدالت یہ کہے کہ اب معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے، عدالت کو قرار دینا چاہیے کہ غیرقانونی حرکت ہوئی بھی ہے تو فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے، اگر پارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہوگا؟ جس پر صدر پاکستان کے وکیل نے کہا کہ قانون سازی نہ ہو تو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ بااختیار ہیں، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے آئین سے منافی قرار دیا تھا، جونیجوکیس میں عدالت نے کہا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے اس لیےفیصلہ عوام ہی کرےگی۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں