اسلام آباد(آئی این پی)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کو معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معیدیوسف نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ نیشنل سیکیورٹی پایسی 7سال میں بنائی گئی،نیشنل سیکیورٹی پالیسی جتنی پبلک ہوچکی اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرائی جائے،نیشنل سیکیورٹی پالیسی کامحور عام شہری ہیں،جموں کشمیر پالیسی کاحصہ ہے ہر سال پالیسی کااسرنوجائزہ لیاجائے گا پوری پالیسی اس لیے پبلک نہیں کی کہ اس کی وجہ سے تنازعات پیداہوجائیں گے۔
پالیسی میں جو نکات جس وزارت سے ہیں عمل درآمد بھی اسی وزارت نے کرواناہے۔یہ پالیسی ماضی اور حال کا نہیں بتارہی ہے یہ مستقبل کی بات کرتی ہے آج کی حقیقت سے اس کا موازنہ نہیں ہوسکتا ہے۔غیرملکی قرض لینا پر نیشنل سیکورٹی اورخارجہ پالیسی کمپرومائز ہوتی ہے،کمیٹی کوان کیمرہ بریفنگ دی تو اگلے دن میڈیا پر میراحوالہ دے کر اس کولیک کردیاگیا اس طرح نہیں ہونی چاہیے۔جمعرات کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کااجلاس محمد احسان اللہ ٹوانہ کی سربراہی ہوا۔اجلاس میں معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معیدیوسف نے شرکت کی۔اجلاس میں ممبرمحمدامیرسلطان،جمشید تامس،مخدوم زین حسین قریشی، منزہ حسن،محمدخان ڈاہا،زہرہ ودود فاطمی،مائزہ حمیداورعبدالشکور نے شرکت کی۔
وزارت خارجہ کے حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں بڑی رکاوٹ ڈالر میں تجارت نہ ہونا ہے اب ریال میں بھی بینک ٹرانزیکشن نہیں ہورہی ہے پاکستان انسانی بنیاددوں پر افغانستان کو سہولت دے رہاہے۔معید یوسف نے کہاکہ افغانستان کے لیے ہم نے راستہ کھلے ہیں افغانستان پر عالمی پابندی نہیں ہے مگر اس کے باوجود بینک شرائط کی وجہ سے ٹرانزیکشن نہیں کرتے ہیں۔افغانستان کا اصل مسئلہ ان کے فریز کئے گئے اثاثوں ہیں۔رکن کمیٹی عبدالشکور نے کہا کہ افغانستان خود مسائل کا شکار ہے امریکہ نے افغانستان میں مسائل پیدا کئے۔افغان طالبان داعیش کے خلاف آپریشن کررہے ہیں۔کچھ لوگ پاکستان میں رہتے ہیں اور بات کسی اور ملک کے لیے کرتے ہیں۔افغانستان میں دوبارہ مسائل پیداہوئے تو نقصان پاکستان کو ہوگا۔مشیر قومی سلامتی معیدیوسف نے کمیٹی کو نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر بریفنگ دی۔ یہ پاکستان کی پہلی نیشنل سیکورٹی پالیسی ہے پہلے پالیسی موجود تھی مگر وہ ڈرافٹ کی شکل میں نہیں تھی۔
یہ پاکستان کی پہلی دستاویزی پالیسی ہے اور جنوبی ایشیائمیں پاکستان پہلا ملک ہے جس نے ڈرافٹ کی شکل میں نیشنل سیکیورٹی پالیسی بنائی ہے۔2014میں نیشنل سیکورٹی ڈویڑن بنایا گیا۔دستاویزی شکل میں بہت کوشش کی مگر نیشنل سکیورٹی پایسی نہیں بنی۔نیشنل سیکیورٹی پالیسی 7سال میں بنائی گئی۔ 2019میں ڈرافٹنگ کمیٹی بنائی گئی۔ تمام وزارتوں صوبوں اور جامعات سب سے اس پررائے لی گئی۔ ہم ڈرافٹ کسی کو نہیں دے سکتے تھے اس پر بات ہوئی کہ لوگوں سے رائے نہیں لی گئی پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے۔6دسمبر کونیشنل سیکورٹی کمیٹی میںہم نے یہ پالیسی پیش کی مگر اپوزیشن اس کمیٹی میں نہیں آئی۔جب تک اس پالیسی پر بحث نہیں ہوگی یہ مستحکم نہیں ہوگی اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو۔آپ جہاں بلائیں گے ہم آنے کو تیار ہیں۔ہر سال اس پالیسی کا جائزہ لیا جائے گا۔نئے حکومت بھی اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔
ہمارے پاس ہرسیکٹر کی پالیسی ہے مگرنیشنل سیکورٹی پالیسی کا دستاویز مسنگ تھا یہ پالیسی ماضی اور حال کا نہیں بتارہی ہے یہ مستقبل کی بات کرتی ہے آج کی حقیقت سے اس کا موازنہ نہیں ہوسکتا ہے۔اس سیکورٹی پالیسی کا محور عام شہری ہے سب سے اہم جز معاشی سیکورٹی ہے فوج سرحد اس کا ایک جز ہے۔ہمارے اخراجات زیادہ ہیں اور وسائل کم ہیں جس کی وجہ سے آپس میں جھگڑا ہوتا ہے۔جب تک معیشت کو بڑا نہیں کیا جاتاہے اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔جب اخراجات پورے نہیں ہوتے تو قرض لینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے نیشنل سیکورٹی اورخارجہ پالیسی کمپرومائز ہوتی ہے۔اگر معیشت بڑی بھی ہوجائے مگر اس کو صحیح طرح تقسیم نہ کیا تب بھی مسائل پیدا ہوں گے۔جیو اکنامک کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جیو اسٹریٹجک سے دور ہورہے ہیں۔ نیشنل انٹرسٹ پر کمپرومائز نہیں کرسکتے ہیں۔جموں وکشمیر نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں موجود ہے۔
اگر جموں کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتاہے تو بھارت کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے ہم خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کریں گے بلیو اکانومی پر کوئی کام نہیں ہواہے اس پر کام کریں گے۔فالٹ لائن کوکم کرنے پر زور دیاگیاہے حکومت کو اکانومی میں نہیں ڈالا ہے خراب حکومت ہمارے انٹرنل فالٹ لائن کو واضح کررہی ہے۔ایجوکیشن کو ہیومن سیکورٹی میں نہیں ڈالا ہے۔ہم شہریت کا نظریہ ہی نہیں بچوں کو نہیں بتارہے ہیں جس سے فالٹ لائن واضح ہورہے ہیں۔ہائبرڈ وار فیئر بھی اس میں شامل ہے۔آبادی میں اضافہ کا مسئلہ، صحت سیکورٹی، فوڈ سیکورٹی، بھی نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں شامل ہے۔ہم پوری پالیسی کو پبلک نہیں کرسکے 62صفحات جاری کئے ہیں۔نیشنل سیکورٹی ڈویژن اس پالیسی کو دیکھتی ہے۔اس پالیسی پر کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ کوشش کریں گے کہ اس پرسو فیصد عمل ہو اگر نہیں ہوگا تو یہ ڈویژن کی ناکامی ہوگی۔نیشنل سیکیورٹی پالیسی سے تمام ڈویژن نے منسلک ہونا ہے۔جو نکات جس وزارت کے ہیں اس پر عمل اس نے ہی کراناہے اگر کوئی وزارت اس پر عمل کرنے میں ناکام ہوگی تو اس کونیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں بلاکر پوچھیں گے۔
انہوں نے کہاکہ میں نے ایک کمیٹی کوان کیمرہ بریفنگ دی تو اگلے دن میڈیا پر میراحوالہ دے کر اس کولیک کردیاگیا اس طرح ان کیمرہ میٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔جو نیشنل سیکورٹی پالیسی پبلک ہوچکی ہے اس پر پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے اس پر بحث کی جائے۔وفاق پر جو پالیسی بنتی ہے اگر وہ اس کاکچھ حصہ صوبوں کومنتقل ہوچکاہو(ڈیوال سبجیکٹ پر ہو تو) اس پر عمل درآمد میں چیلنجز ہوں گے۔یہ کہناٹھیک نہیں کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی میں پارلیمنٹ کو باہر رکھا گیاہم نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں سب کو بلایا تھا مگر اپوزیشن اس میں نہیں آئی۔نیشنل سیکورٹی پالیسی کے کچھ اہداف تین سال کچھ پانچ سال میں حاصل کرنے ہیں اور کچھ لانگ ٹرم کے ہیں۔ممبرکمیٹی عبدالشکور نے کہاکہ ملک میں بڑا مسئلہ رول آف لائکا ہے۔
نیشنل سیکورٹی پالیسی پر عمل بھی ہونا چاہیے۔زہرہ ودود فاطمی نے کہاکہ آبادی تیزی سے بڑرہی ہے اس پر ایوان میں بحث کی جائے۔چیئرمین نے کہاکہ افغان سرحد پرفینسنگ ہٹائی جارہی ہے اس ہر آپ کیا کہیں گے۔معید یوسف نے کہاکہ فینسنگ پر پالیسی لیول پر مسائل نہیں ہیں مسائل لوکل لیول پر ہے افغان طالبان کے کہنے ہر ایک ماہ کی سیز فائر ٹی ٹی پی سے ہوئی تھی مگر ٹی ٹی پی نے ایک ماہ کے بعد یکطرفہ طور پرسیز فائز کوختم کردیا ہے مقامی سطح پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں بظاہر باڑ سے طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہیبلاشبہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا نیٹ ورک موجود ہیگزشتہ دس بارہ سالوں میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں نے اپنا پورا نیٹ ورک پھیلایا ہوا ہے۔…
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں