پاکستان کیلئے کونسا آخری کام کرنا چاہتا ہوں؟ وزیراعظم عمران خان نے انٹرنیشنل میڈیا کو انٹرویو میں بتا دیا

اسلام آباد(پی این آئی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا نے افغانستان پر توجہ نہ دی تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، افغانستان کے ایک کروڑ 40 لاکھ عوام امداد کی منتظر ہیں، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموںو کشمیر میں80 لاکھ کشمیری ایک کھلی جیل میں زندگی بسرکرنے پرمجبور ہیں جو ایک بڑے قیدخانے کا منظر پیش کررہا ہے ، کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پراجاگر کریں گے۔

میری سیاست کا مقصد پاکستان کو کرپٹ حکمرانوں اور مافیاز سے پاک کرکے اسے صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے، نبی کریم ﷺ میرے رول ماڈل ہیں، کوشش ہے کہ پاکستان کو فلاحی ریاست بناؤں، نبی کریم ﷺکی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی بنائی، قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا، میری ساری جدوجہد اشرافیہ کے خلاف ہے، پاکستان پر دو کرپٹ خاندانوں نے حکومت کی، کورونا کی وجہ سے ساری دنیا کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا، دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عدل، انصاف اور قانون کی حکمرانی مہذب معاشروں کی بنیادی اقدار ہوتی ہیں، میری سیاست کا مقصد پاکستان کو کرپٹ حکمرانوں اورمافیازسےپاک کرکےاسےصحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے،عدل،انصاف اورقانون کی حکمرانی مہذب معاشروں کی بنیادی اقدارہوتی ہیں, میرے والد نے پاکستان کی اپنی نوعیت کی پہلی انجینئرنگ کنسلٹنسی فرم قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو بہت سارے بحرانوں کا سامنا ہے، افغانستان کی صورتحال تشویشناک ہے، پاکستان میں پہلے ہی 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں، دنیا نے افغانستان پر توجہ نہ دی تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، نائن الیون میں کوئی افغان شہری ملوث نہیں تھا لیکن افغانستان پرامریکہ کی مسلط کردہ جنگ ایک جنونی عمل تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں نام نہادجنگ کے نام پر20 سال تک قبضہ کیے رکھا، سمجھ نہیں آیا امریکی افغانستان میں کیا اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے؟ افغانستان کے ایک کروڑ 40 لاکھ عوام امداد کی منتظر ہیں اور امریکہ کو اب افغان عوام کا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق، عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جہاں 80 لاکھ کشمیری کھلی جیل میں رہ رہے ہیں اور 8 لاکھ بھارتی فوجیوں نے انہیں کھلی جیل میں بند کررکھاہے، ہم نے اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھایا ہے، ہم نے یہ معاملہ اسلامی تعاون تنظیم میں اٹھایا اور اسلامی ممالک سے بات بھی کی ہے، اسلامی ممالک کے بھارت کے ساتھ اپنے اپنے تعلقات ہیں اور آپ ان سے کچھ زیادہ توقع نہیں کر سکتے لیکن پاکستان اپنے طورپر یہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ہر فورم پر اٹھائیں، جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے اس کو عالمی سطح پر اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 20 سال تک کرکٹ کھیلی، ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اطمینان کااحساس ہوا، کھیل آپ کو مشکل حالات میں لڑناسیکھاتے ہیں، آپ کی ناکامی آپ کا بہترین استاد ہے جو آپ کو مقابلہ کرنا سیکھاتی ہے، میری والدہ پاکستان کو ایک عظیم ملک کےطورپردیکھناچاہتی تھی،والدہ کی وفات کےبعدکینسرہسپتال بنانےکافیصلہ کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نےکہاکہ کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکمرانی کےبغیرقائم نہیں رہ سکتااورکرپشن ملک کو تباہ کردیتی ہے،پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں،ملک کی بدحالی کےذمہ داربھٹو اورشریف خاندان ہیں،بھٹو اورشریف خاندان نےوسائل کاناجائزاستعمال کیا، ہم ملک کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں، ہمارا مقابلہ دو ایسے خاندانوں سے ہے جودولت سے مالا مال ہیں، بھٹو اورشریف خاندان سیاست نہیں خاندانی نظام قائم کرناچاہتے ہیں جبکہ پاکستان کی بدحالی کے ذمہ دار بھی یہی دونوں خاندان ہیں,چینی سکینڈل پر حکومت حرکت میں آئی جبکہ وزیروں کیخلاف بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے تو خود شفاف تحقیقات کروںگا۔وزیراعظم عمران خان نےکہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی حکومت بھارت اورخطے کیلئے خطرناک ہے، بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہے جو فاشسٹ جماعت ہے، اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو پاکستان اتناہی موثر جواب دے گا جیسا فروری 2019 ءمیں دیا تھا۔

کورونا کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اور میری اہلیہ دونوں کو ایک ساتھ کورونا ہوا تھا ،پانچ دن مشکل تھے، ساتویں دن دوبارہ کام کررہا تھا، مکمل بحال ہو نے میں آٹھ سے نودن لگے۔ کورونا وبا کے دوران سمارٹ لاک ڈاؤن کے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اگر میں نے ملک بند کردیا تو دیہاڑی دار لوگوں کاکیا بنے گا؟جن کے خاندانوں کا گزارا ان کی روزانہ کی کمائی پر ہوتا ہے، اگر میں معیشت کو بندکردیتا تو ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیور اور چھابڑی والوں کاکیا بنتا جو اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں؟ میں غریب طبقے کو کچلنا نہیں چاہتا تھا، ہم نے سمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی اپنائی اور کچھ علاقوں میں لاک ڈاون لگایا، میں یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ وہ بھوک سے مر جائیں،ایک طرف آپ کورونا سے لوگوں کو بچا رہے ہیں تو دوسری طرف وہ بھوک سے مررہے ہوں ، میں ایسا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ وزیراعظم نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ میں تین سال بہت مصروف رہا ہوں اور میری کوئی سماجی مصروفیت نہیں رہی،ایک ہی آپشن ہے کہ میں پہاڑی علاقوں میں جاوں، ہمیشہ میرا رجحان ماحول کی طرف تھا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ پاکستان میں دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑی مناظر ہیں۔

میں سویٹزر لینڈ اور آسٹریا سمیت دنیا میں ہر جگہ گیا لیکن وہ خوبصورتی کہیں بھی نہیں جو پاکستان کے ہمالیہ ، قراقرم اور دیگر پہاڑی سلسلہ میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ حکومتوں کی طرف سے جنگلوں اور درختوں کی کٹائی کی اجازت دینے کے بارے میں سوچتا تھا، جو ماحولیاتی تنزلی ، ماحول کی خرابی اور جنگلی حیات کے خاتمے کا باعث بنی اور یہ عہد کیا کہ اگرمجھے کبھی موقع ملا تو میں ملک میں دوبارہ جنگلات اگاؤں گا تاکہ جنگلی حیات واپس آئے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے بلین ٹرین لگانے کاانتہائی پرعزم سونامی شروع کیا ہے، ہم اب تک اڑھائی ارب درخت لگا چکے ہیں۔ روایتی پاکستانی لباس پہننے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں ملک کا وزیر اعظم ہو ں ، 90 فیصد سے زائد لوگ ایسے ہی کپڑے پہنتے ہیں، میں اپنے لوگوں کی نمائندگی کرتا ہوں،میرے عوام جو کپڑے پہنتے ہیں میں بھی انہی جیسا لباس پہنتا ہوں ۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں