اسلام آباد (پی این آئی) سخت شرائط ماننے کے باوجود پاکستان ،آئی ایم ایف سمجھوتہ نہ ہوسکا۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کا کہنا ہے کہ بجلی ٹیرف ، پٹرول اور ڈیزل میں اضافے سے مہنگائی کے دبائو میں 3 فیصد پوائنٹس اضافہ ہوگا۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق، آئی ایم ایف اور پاکستان، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) پر مفاہمت میں ناکام رہے ہیں اور اب تک 6 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت
اسٹاف لیول معاہدہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔پاکستان کو امید ہے کہ سیکرٹری خزانہ آئندہ چند روز تک واشنگٹن ڈی سی میں قیام کریں گے تاکہ مفاہمت اور ایم ای ایف پی پر اتفاق رائے کے لیے آخری کوشش کرسکیں تاکہ ای ایف ایف پروگرام کے تحت 1 ارب ڈالر منظوری کی راہ ہموار ہوسکے۔پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی سخت شرائط جو کہ بجلی ٹیرف میں 1.39 روپے فی یونٹ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10.49 سے 12.44روپے تک اضافہ کرنے کے باوجود
آئی ایم ایف اسٹاف اب بھی میکرو اکنامک فریم ورک سے مطمئن نہیں ہے۔جب کہ دوسری جانب پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے بتایا ہے کہ بجلی ٹیرف ، پٹرول اور ڈیزل میں اضافے سے مہنگائی کے دبائو میں 3 فیصد پوائنٹس اضافہ ہوگا اس طرح سی پی آئی 9 فیصد سے 12 فیصد بڑھ جائے گی، جس سے تنخوا دار اور کم آمدنی والے طبقات کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ
سی پی آئی بنیاد پر مہنگائی میں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے تناظر میں 3 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوگا۔آئی ایم ایف کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پریشان کن بات ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف اب تک مالیاتی فریم ورک، بیرونی محاذ اور بجلی کے شعبے میں اعداد کی تبدیلی میں مصروف ہے۔یہاں ایم ای ایف پی پر مفاہمت کے لیے غیرمعمولی طور پر محتاط مہارت کی ضرورت ہے لیکن غلط یا ناقابل عمل اعدادوشمار کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام معطل
ہوسکتا ہے کیوں کہ اسلام آباد 6 ارب ڈالرز کے ای ایف ایف انتظامات کے تحت مستقبل کے جائزوں کے حصول میں ناکام رہ سکتا ہے۔ 36 ماہ کے توسیعی فنڈ انتظامات کو مکمل کرنے کے لیے پاکستان کو 12 جائزے مکمل کرنا ہوں گے۔کرنٹ اکائونٹ خسارے کے مسئلے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تخمینہ لگایا ہے کہ یہ جی ڈی پی کا 3 فیصد کے لگ بھگ رہ سکتا ہے، جو کہ رواں مالی سال میں 9.5 ارب ڈالرز کے برابر ہوگا۔ تاہم، آئی ایم ایف نے کرنٹ اکائونٹ خسارے کو بلند سطح پر رکھا ہے
اور ایم ای ایف پی واضح تصویر دے گی، آئی ایم ایف اسٹاف کا تخمینہ جی ڈی پی کا 4 فیصد سے زائد ہوگا۔پاور سیکٹر میں ، آئی ایم ایف یہ بھی سمجھتا ہے کہ گردشی قرضوں میں اضافے کی رفتار حکومت کے دعوئوں سے زیادہ تھی۔ گو کہ حکومت نے بجلی ٹیرف میں 1.39 روپے فی یونٹ اضافہ کیا ہے لیکن آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ پاکستان جاری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) بجلی ٹیرف میں 1.50 روپے سے 2.50 روپے فی یونٹ اضافہ کرے۔مالیاتی فریم ورک پر آئی ایم ایف نے
اضافی ٹیکس اقدامات کا کہا ہے، جیسا کہ جی ایس ٹی استثنا کا خاتمہ، ذاتی انکم ٹیکس سلیبس میں توازن، ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ اور پی ایس ڈی پی میں 200 سے 300 ارب روپے کی کمی۔ جی ایس ٹی استثنا کی رفتار اور مرحلہ وار خاتمے پر اختلافات اب بھی برقرار ہیں۔ذاتی انکم ٹیکس کے حوالے سے آئی ایم ایف آمدنی سلیبس میں توازن چاہتا ہے جیسا کہ کم سے کم قابل ٹیکس رقم کی حد 6 لاکھ روپے سے بڑھائی جاسکتی ہے لیکن بلند آمدنی سلیبس پر ٹیکس شرح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ انکم ٹیکس سلیبس میں کمی بھی کی جاسکتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں