افغانستان کی نئی حکومت کی جانب سے پاکستان کو کیا یقین دہانی کرا دی گئی؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کابڑا اعلان

راولپنڈی(پی این آئی)پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان میں عسکری صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہوئی تاہم پاکستان کی طرف افغان سرحد پر حالات مکمل قابو میں ہیں، طالبان کی جانب سے افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، بھارت کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے جس نے افغانستان میں سرمایہ کاری صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کی، پاکستان میں امن و امان افغانستان میں دیرپا امن سے وابستہ ہے، پاکستانی قوم کی حمایت سے مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کیں۔جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 15 اگست کے بعد عسکری صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے، کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی تیزی سے حالات بدلیں گے، پاکستان نے ممکنہ صورتحال کے پیش نظر پاک۔افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے ہیں، بین الاقوامی سرحد کی پاکستانی سائیڈ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان سرحد پر عدم استحکام کی صورتحال کے پیش نظر فوجی دستے تعینات کئے گئے، سرحد پر قانونی دستاویزات کے ساتھ ہمدردی کی بنیاد پر نقل و حمل کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان چھوڑنے کے خواہاں غیر ملکیوں کے انخلاء کیلئے پروازوں کی اجازت دی ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ جب مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہے تھےاور مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے جامع بارڈر منیجمنٹ سسٹم کا اہتمام کیا۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سرحد مکمل طور پر محفوظ بنانے کا وژن دیا، اہم بارڈر ٹرمینلز کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2012ء تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی باقاعدہ بارڈر میکنزم موجود نہیں تھا، دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی انتظام کے حوالہ سے اقدامات کئے گئے جبکہ خفیہ اطلاعات کے تبادلے کیلئے بھی طریقہ کار وضع کیا گیا،افغان سرحد پر باڑ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی اور اہم کاوش تھی، اس کام کے دوران کئی پاکستانی فوجیوں کی جانیں گئی ہیں، پاک افغان سرحدپر باڑ لگانے کا 90 فیصد کا کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام ہو رہا ہے اور 50 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کو سرحد پر سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کے علاوہ فوجیوں کی تربیت کی کئی بار پیشکش کی تاہم صرف کچھ ہی افغان افسر یہاں آئے جبکہ زیادہ تر نے بھارت سے تربیت حاصل کی ۔افغانستان کو تعاون کی اس پیشکش کا پس منظر بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امن و امان افغانستان میں امن کے قیام سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان عوام کے بعد اس تنازع کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے، پاکستان کو 80 ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ 102 بلین ڈالر کے معاشی نقصانات بھی برداشت کرنا پڑے ہیں جبکہ ابھی بھی گنتی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کی حمایت سے دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشنز سے دہشت گردی میں بتدریج کمی آئی ، پاکستانی قوم اور فورسز کی قربانیوں کی وجہ سے دو دہائیوں پر محیط دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کامیاب ہوئے۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 78 راہداریاں ہیں جن میں سے 17 سرکاری نوعیت کی ہیں، 5 راہداریوں سے تجارت ہو رہی ہے جبکہ 73 بند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہی افغانستان سے انخلا کے عمل کا سب سے اہم حصہ ہے اور اب تک 5500 غیر ملکیوں کو پاکستان کے ذریعے افغانستان سے نکالا جا چکا ہے۔ اس موقع پر چین اور ازبکستان سمیت خطہ کے دیگر ممالک سے عسکری تعاون کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان ممالک کی افواج میں کوئی براہ راست رابطے نہیں ہوئے بلکہ یہ حکومتی سطح پر ہی محدود ہیں۔ پنج شیر میں جنم لینے والی صورتحال کے حوالے سے سوال پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا ہمیشہ سے خطرہ رہا ہےتاہم اس وقت صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی اور کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم فی الحال خانہ جنگی کا امکان نہیں ہے۔ افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد سے متعلق انہوں نے کہا کہ کوئی پناہ گزین پاکستان نہیں آ رہے، سرحد پر افراتفری کی صورتحال نہیں ہے اور ہر آنے جانے والا متعلقہ دستاویزات کے ساتھ آ رہا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کا منفی کردار رہا ہے، امید ہے افغانستان سے اسکا اثر ختم ہو جائے گا، بھارت نے وہاں جو سرمایہ کاری کی وہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کی،اسے افغان عوام سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی تخریبی کاروائیوں میں بھارت ملوث ہے، این ڈی ایس اور را پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں۔ سی پیک سے متعلق منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں پر ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہوئی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ طالبان نے یقین دلایا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے پاکستان یا کسی بھی اور ملک کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اس لیے وہ وہاں آزادی سے نہیں رہ سکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی طرف کوئی مسئلہ ہوا تو ہم اس کے لیے تیار ہوں گے۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے اعلان کیا کہ 6 ستمبر کو یوم دفاع اور شہداء پوری قوم کے ساتھ مل کر منایا جائے گا، یوم دفاع اور شہداء ”وطن کی مٹی گواہ رہنا” کے ٹیگ کے ساتھ منایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یوم دفاع اور شہداء منانے کا مقصد مادر وطن کے دفاع کے لئے جانیں قربان کرنے والے اپنے عظیم ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے، شہری شہدا کے گھروں میں جا کر ان کی عظیم قربانیوں کو سلام پیش کریں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں