عرب پارلیمنٹ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیلئے بڑا اعزاز

اسلام آباد (پی این آئی ) وزیراعظم عمران خان نے عرب پارلیمنٹ کے سربراہ کی جانب سے خطاب کی دعوت قبول کرلی، عمران خان عرب پارلیمنٹ سے خطاب کرنیوالے پہلے غیرعرب سربراہ ہوں گے۔تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعظم کے نمائندہ خصوصی طاہر محمود اشرفی کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ عرب پارلیمنٹ کے سربراہ عادل عبدالرحمان العسومی نے وزیراعظم عمران خان کو خطاب کی دعوت دی اور عمران خان نے خطاب کی دعوت قبول کرلی۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ عمران خان عرب پارلیمنٹ سےخطاب کرنیوالے پہلے غیرعرب سربراہ ہوں گے۔ قبل ازیں وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی حافظ طاہر اشرفی نے بین المسالک ہم آہنگی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین المسالک حسن تعلق قائم ہوجائے تو ملک کیخلاف تمام سازشیں دم توڑ جائیں گی ،ایک دوسرے کے قریب اور دور کرنے پر بہت محنت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے روز شیعہ سنی کے نام پر 15 لاشیں گری تھیں ،ہمارے اکابرین نے قتل و غارت کیخلاف قوم کو جمع کیا ،امام حسینؓ تو سب کے ہیں ،خوف ان ایام میں ہوتا ہے کہ دشمن اپنے کھیل کو آگ نہ لگا دے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر اس کو ناکام بنانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پیام پاکستان سے متفقہ ضابطہ اخلاق طے کیا گیا ہے ،بطور ریاست فیصلہ کیا ہے قانون توڑنے والے کو چھوڑیں گے نہیں۔انہوں نے کہا کہ قانون شکنی نہ کرنے والوں کو چھیڑیں گے نہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام علما و ذاکرین واعظین متفقہ 14نکاتی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد یقینی بنائیں ،ہمیں اپنے مشترکات اور مقدسات کا احترام یقینی بنانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ طے کیا ہے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی کوئی سفارش نہیں کرے گا ۔انہوں نے کہا کہ پڑوس میں تبدیلی آ رہی ہے، افغانستان میں را کے دفاتر بے نقاب ہو رہے ،بیس سال دہشتگری و انتہا پسندی کیخلاف جنگ کرکے اسے شکست دی گئی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک دن مدینہ جیسی ریاست بنے گی ،سب کو آئین کی پاسداری کرنی ہے اور اس پر چلنا ہے ،کل سے پنجاب میں یکساں نظام تعلیم نافذ ہو چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یکساں نصاب میں اقلیتوں کا سب سے زیادہ تحفظ کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یکساں نصاب تعلیم میں ایک جملہ ایسا نہیں ہے جس سے کسی مذہب یا مسلک کی دل آزاری ہو ۔انہوں نے کہا کہ متحدہ علما بورڈ نے کئی دن لگا کر ایک ایک کتاب کا جائزہ لیا ،اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دی جائیگی، وزیراعظم بھی کہہ چکے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات دے، ہم اس پر عملدرآمد کرتے جائینگے ۔انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس رسولؐ نے عورت کو جو حق دیا وہ کوئی اور نہیں دے سکتا ۔انہوں نے کہا کہ عورت کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا تھا اسلام نے اسے عزت دی ،نور مقدم کیس دیکھ لیں جو ہم کہتے تھے اب وہ سب لوگ کہہ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ نور مقدم کیس والدین اور بچوں کے آپس میں خلا ء کی وجہ ہے ،والدین اور بچوں میں اتنا فاصلہ پیدا نہ کریں کہ انہیں پتا ہی نہ چلے کہ ہو کیا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ نور مقدم کیساتھ جو ہوا اکیلے میں سوچ کر بھی رونا آتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ بحالت مجبوری قانون میں ترمیم کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ کیا علماء نے کبھی کہا ہے کہ مسجد میں جرم کرنے والوں کو سزا نہ دو۔ انہوں نے کہا کہ محرم الحرام میں امن و امان کیلئے رابطہ دفاتر قائم کر دیئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے علما و مشائخ سمیت تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے معاشرے کو تقسیم کو روکا ۔انہوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق، مولانا ضیاء فاروقی، علامہ ساجد علی نقوی، قاضی حسین احمد اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے اکابرین نے فرقہ واریت کو ناکام بنایا ۔انہوں نے کہا کہ آج ہمیں اسی جذبے کی ضرورت ہے کہ دشمنوں کی سازشوں کو سمجھیں اور ناکام بنائیں ۔حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ علما بورڈ لاہور میں رابطہ سیل قائم کردیا ہے ،پورے ملک میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام مل کر بیٹھے ہیں ،چرچ، مدارس، امام بارگاہوں، افواج، پولیس اور عام شہری صرف اس لئے دشمن کا نشانہ بنتے ہیں کیونکہ وہ پاکستانی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ایک جملہ نشر ہونے سے ملک کا امن دائو پر لگ گیا تھا ،میڈیا بھی تھوڑی احتیاط کرے، سوشل میڈیا پر پرانی ویڈیوز کو نیا کرکے پھیلایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مذہبی طبقے نے تحقیق کرنا بالکل ہی چھوڑ دی ہے ،صبح ہم یہودی دن کو قادیانی اور شام کو عیسائی ہوتے ہیں ،رات کو کسی کو پسند آ جائیں تو مسلمان بنا دیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ علما تعاون کریں ریاست اپنے فیصلوں پر عمل کروائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکہ کو ایبسلوٹلی ناٹ کہہ دیا ہے جس کی قیمت معلوم ہے ادا کرنا پڑیگی ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے واضح کردیا کہ ہم افغانستان میں امن کے ساتھی ہیں، امن کے لئے تیار ہیں،افغانستان نے اپنا فیصلہ خود کرنا ہے ۔اس موقع پر چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ مسالک و مذاہب کے درمیاں ہم آہنگی کے لئے ہماری سفارشات موجود ہیں ،بین المسالک ہم آہنگی ایک مسلسل عمل ہے ،حساس اداروں سے بھی مشاورت کی ہے کہ مسئلے کا باعث بننے والوں کی مانیٹرنگ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل پیدا کرنے والوں کیخلاف ایکشن ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کو خراب کرنے والوں کیخلاف فوری کارروائی کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ محرم کو بعض عناصر خون آلود کرنا چا ہتے ہیں ،فرقہ ورانہ اور مسالک میں اختلافات پر مبنی مواد سوشل میڈیا ہر عام کیا جا رہا ہے،یہ مو ضاعات علماء اور ماہرین کے لئے ہوتے ہیں ،گلی محلوں میں اس کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہیے،اختلافات ختم نہیں ہو سکتے تاہم ان کو کم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ سی پیک کو ناکام بنانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ،سی پیک کو کامیاب بنانے کے لئے مل کر کوشش کرنا ہو گی ۔انہوں نے کہاکہ محرم الحرام کو خونی اور خوف کا مہینہ بنانے کی مزموم کوششیں کی جا رہی ہیں ،ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مل کر ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ توہین آمیزمواد کی مانیٹرنگ اور روک تھام کیلئے وزارتوں کی سطح پر کمیٹیاں بنادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے (9جون2021)میں مذہبی منافرت اور گمراہانہ کوششوں پر مبنی مواد کی روک تھام و بین المسالک/بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کنونشن اس فیصلہ کی تحسین کرتے ہوئے امید کرتا ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایسے مصنف اور واعظ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائیگی جو فرقہ واریت پھیلانے میں ملوث ہو۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو فرقہ واریت پھیلانے کے لیے استعمال کرنے والے عناصر کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے بلاتفریق مسلک و مذہب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر ایسی شخصیات کو سامنے لانے کا اہتمام کیا جائے جو اتحادِ امت کی داعی ہوں،ان کوششوں کیلئے بلا خوف وخطر واشگاف موقف اختیار کیا جائے گا۔علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کہا کہ اسلام ہمیں تنگ نظری کا سبق نہیں دیتا ،اسلام امن کا دین ہے ،علمائے کرام کو وحدت کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔انہوں نے کہاکہ اسلام اور ملک دشمن قوتیں تفرقہ پھیلانے کی سازشیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ محرم الحرام میں ہمیں امن وامان کو برقرار رکھنے کیلئے ہم سب کو متحد ہو کر دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اختلاف پھیلانے کی کوشش کرے اس کی نشاندہی کی جائے،تمام مسالک کے جید علمائے کرام اپنا کردار ادا کریں ،اتحاد و بھائی چارے کو فروغ دیں ۔انہوں نے کہا کہ اپنے خطابات اور تقاریر میں اتحاد کا درس دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ 2017 سے وراثت اور بیوگان کا ایک بل زیر بحث ہے یہ بل قومی اسمبلی سے منظور 10 جون کو ہوگیا ،64سال سے قانون میں کسی نے لکھ دیا کہ شیعہ بیوگان کو ان کا حق نہیں ملتا ،یہ بل پھر سینیٹ میں گیا مگر وہاں سے اسے قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا گیا ،اس کے بعد بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ فرقہ وارانہ بل ہے اور یہی بات پھر سب ارکان نے کہہ دی۔انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے تمام ارکان جو وکیل ہیں اسے فرقہ واریت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ۔انہوں نے کہا کہ اس بل پر وزیر قانون تک کو نہیں بلایا گیا، اس معاملے پر چیئرمین سینیٹ کو خط لکھ چکا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ 14اہل سنت کے جید علماء کے خط بھی چیئرمین سینیٹ کو جاچکے ہیں کہ یہ بل فرقہ وارانہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح کی باتیں کرکے تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔صاحبزادہ ساجد الرحمن نے کہا کہ جو باتیں اس طرح کے فورمز پر ہورہی ہیں وہی موقف محراب و منبر پر ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم ایوان اور منبر پر موقف ایک کرگئے تو یہاں انتہا پسندانہ کلچر اور فتنہ ختم ہو جائیگا۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے نظریات تبدیل نہیں کرسکتے مگر متنازعہ امور کو اچھالنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا جانا چاہئے کوئی کسی کے عقائد پر حملہ آور ہو۔انہوں نے کہا کہ تحریک پاکستان ہو یا ختم نبوت تحریک، کوئی شیعہ سنی تفریق نہیں تھی تو آج کیوں ہے ؟ ۔انہوں نے کہا کہ شیعہ سنی کو لڑانے والی دراصل تیسری قوت کی سازش ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ،آج تو مسالک کے درمیان لڑائی شروع ہوچکی ہے، سب کچھ سوشل میڈیا پر عیاں ہے؟ کیوں اس پر غور نہیں کرتے۔بعد ازاں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ کنونشن کا 21نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وطن عزیز میں فرقہ وارانہ اور مسلکی منافرت و فسادات کی بیرونی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ،ہم عہد کرتے ہیں اس قسم کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے مختلف مسالک سے وابستہ قائدین و اہل علم کے ساتھ مل کر کوشش کریں گے ۔اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ ہم حسن تعامل کے رویے کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے ،اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں دوسروں کے مسلک کو چھیڑو مت کے اصول کو عام کرینگے ،مسالک کے درمیان مناظراتی انداز کی بجائے علمی مکالمے کو منہج کو فروغ دیا جائیگا ۔اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ خالص علمی مسائل کو عوامی سطح پر موضوع بحث بنانے سے گریز کے رویے کو فروغ دینے کی کوشش کرینگے ،مختلف مسالک کے قائدین اور مقدس شخصیات بارے متنازعہ بیانات سے احتراز پالیسی کی تلقین کرینگے ۔مسلکی تنظیموں میں موجود انتہا پسند عنصر کی حوصلہ شکنی کی جائے گی ۔مساجد، دینی مدارس، امام بارگاہوں اور دینی تقاریب میں ایک دوسرے کو خوش آمدید کہا جائیگا۔خطبات جمعہ، عوامی مجالس و جلسوں میں ملی ارتباط اور رواداری کے موضوعات کو خصوصی اہمیت دی جائیگی۔انتشار کا باعث بننے والوں کو کوئی بھی مسلک عوامی سٹیج پر جگہ نہ دے ۔اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے مناظروں کے سدباب کے لئے مسلکی و حکومتی سطح پر موثر کوشش کی جائیگی۔مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیز، متنازعہ، غیر مستند اور ایسے غیر ضروری تشہیر و اشاعت کو روکا جائیگا

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں