قومی اسمبلی اور سینیٹ میں غلط بیانی یا ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر سرکاری ملازمین اور وفاقی وزیر کو کتنی سزا ہو سکتی ہے؟تاریخ میں پہلی بار توہین پارلیمنٹ بل کی سفارشات تیار کر لی گئیں

اسلام آباد(پی این آئی) قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت قائمہ کمیٹیوں کے سامنے غلط بیانی یا ریکارڈ فراہم نہ کرنے کے حوالے سے توہین پارلیمنٹ بل کی سفارشات تیار کر لی گئی ہیں ،بل کے مطابق کسی بھی سرکاری آفیسر کو 3سے 6ماہ تک سزا دی جاسکتی ہے جبکہ وفاقی وزیر کو بھی غلط بیانی پر سزا دی جاسکتی ہے

،قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق میں پارلیمنٹ کی توہین کے بل کا مسودہ پیش کردیا گیا یہ مسودہ کمیٹی کی ہدایت پر تیار کیا گیا اس موقع پر کمیٹی کو کنسلٹنٹ بیرسٹر راحیل نے بل پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں توہین کے حوالے سے قانون سازی موجود ہے تاہم قومی اسمبلی اور سینیٹ کی سطح پر کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہے اور اس بل کے حوالے سے سفارشات تیار کی گئی ہیں جس کے مطابق اگر کوئی افسر ، وزیر یا متعلقہ شخص کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوتا یا کمیٹی کو دستاویزات فراہم نہیں کرتا یا جعلی دستاویز فراہم کرکے گمزاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ، وہ توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہو گا اور توہین پارلیمنٹ کا مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج یا سیشن جج کی عدالت میں چلے گا جس کے لئے ایک عدالت قائم کی جائے گی جو پارلیمنٹ کی حدود میں سماعت کرے گی اگر کوئی آفیشل توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہوا اسے تین سے چھ ماہ تک قید ، پچیس ہزار روپے جرمانہ ہو گا ، اوراگر وزیر توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہوا تو ایک مدت تک اس کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے پر پابندی ہوگی انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کسی کے خلاف سمن جاری کرنے کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے اور جس شخص کے خلاف سمن جاری کرنا ہو تو اس وہ علاقہ جس مجسٹریٹ کی حدود میں آتا ہے اس کی جانب سے وارنٹ یا سمن جاری کیا جائے گا اس موقع پر کمیٹی نے سفارشات کو اگلے اجلاس میں بل کی صورت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزارت قانون اور پارلیمانی امور کے افسران کو طلب کر لیا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں