چمن(پی این آئی)بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کی کشیدہ صورتحال کے حوالے سے حکومت بلوچستان اور دھرنا کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور مقامی تاجروں اورمحنت کشوں نے گذشتہ 62 روز سے وہاں جاری دھرنے کو ختم کردیا ہے۔چمن میں اگرچہ احتجاج کا سلسلہ دو ماہ سے
زائد کے عرصے سے جاری تھا لیکن جمعرات کو صورتحال اس وقت خراب ہوئی تھی جب مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے دوران لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔مظاہرین نے سرحد کے قریب قرنطینہ مرکز کو جلانے کے علاوہ نادرا کے دفتر کو بھی نذر آتش کیا تھا۔جمعے کو دوسرے روز بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سرحد کے قریب پاکستان اور افغانستان کے درمیان شاہراہ پر دھرنا دیا تھا جس کے دوران ایک مرتبہ پھر لیویز فورس کے اہلکاروں سمیت دس افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان زخمیوں میں پانچ عام شہری تھے جو کہ گولی لگنے کے باعث زخمی ہوئے تھے۔چمن ہسپتال کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق دو روز کے دوران مجموعی طور پر ایک خاتون سمیت کم از کم تین افراد ہلاک اور23سے زائد زخمی ہوئے تاہم دھرنا کمیٹی کے ترجمان اور تاجر رہنما صادق خان اچکزئی کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 7اور زخمیوں کی تعداد 30 ہے۔جمعرات کو بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو کی قیادت میں ایک حکومتی وفد نے چمن کا دورہ کیا۔ وفد میں صوبائی وزیر زراعت زمرک خان اچکزئی اور رکن بلوچستان اسمبلی اصغر خان اچکزئی شامل تھے۔ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق چمن میں کشیدہ حالات کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں وزیر داخلہ میرضیاءاللہ لانگو کی زیرصدارت اعلی سطحی اجلاس ہوا۔اجلاس میں سویلین اور فوجی حکام نے بھی شرکت کی۔حکومتی وفد نے وہاں تاجر رہنماؤں اور دھرنا کمیٹی کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کی۔وزیر داخلہ نے بتایا کہ حکومت انکوائری کمیشن قائم کرے گی جو واقعے کے تمام پہلوؤں سے تحقیقات کرے گی اور ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری فوج اور عوام ایک صفحے پر ہیں لیکن غلط فہمیاں پھیلا نے کی کوشش کی
جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں چونکہ سکیورٹی معاملات ہیں اس لیے احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغان بارڈر کی بندش کی بنیادی وجہ دہشت گردی تھی جہاں سے دہشت گرد یہاں داخل ہو رہے تھے ۔انھوں نے کہا کہ عوام کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن سکیورٹی معاملات پر بھی کمپرومائز نہیں کر سکتے۔اعلامیے کے مطابق چمن چیمبر آف کامرس، انجمن تاجران،اور محنت کش اتحاد تنظیم نے بلوچستان حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔دوسری جانب چمن میں دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے دھرنے کے خاتمے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے تاجروں اور محنت کشوں کے مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تاجروں اور محنت کشوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ دو مارچ سے قبل جس طرح چمن کے تاجر اور محنت کش روزانہ آمد و رفت کرسکتے تھے اس کو بحال کیا جائے۔صادق اچکزئی نے بتایا کہ اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے دو مارچ سے قبل والی صورتحال کو بحال کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جن تاجروں اور محنت کشوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان راہداری ہوگا وہ روزانہ کی بنیاد پر پہلے
کی طرح افغانستان جاسکتے ہیں اور واپس آسکتے ہیں۔صادق اچکزئی کے بقول جمعرات کو سرحد پر کن وجوہات کی باعث حالات کشیدہ ہوئے ان کی مکمل انکوائری کی جائے گی اور ذمہ دار افراد کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔تاجر رہنما نے مطابق ان واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے علاوہ زخمی افراد کو معاوضہ دیا جائے گا۔اس سے پہلے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ 30 جولائی کو افغان فورسز نے چمن کے فرینڈشپ گیٹ پر پاکستان کی جانب جمع ہونے والے شہریوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی تھی اور پاکستان کی جانب سے دفاعی کارروائی کی گئی تھی۔پاکستان نے کہا ہے کہ افغان فورسز نے پوسٹ پر تعینات پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر بھی فائرنگ کی جس پر ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے معصوم شہریوں کے تحفظ کے لیے صرف دفاعی کارروائی کی تھی۔‘جمعرات کو افغانستان سے متصل چمن میں سرحد کی بندش کے خلاف احتجاج کے دوران فائرنگ سے ایک خاتون سمیت کم از کم تین افراد ہلاک اور 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان سے پہلے بعض ایسی اطلاعات تھیں کہ دونوں ممالک کے سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس حوالے سے
ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی تھی۔یاد رہے کہ بلوچستان کےسرحدی شہر چمن میں جمعے کو دوسرے روز بھی صورتحال کشیدہ رہی جبکہ فائرنگ اور پتھراؤ سے مزید دس افراد زخمی ہوگئے ہیں۔مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ ان پر سکیورٹی فورسز نے براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد لوگ زخمی ہوگئے۔ جبکہ بلوچستان کے وزیر داخلہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔چمن ہسپتال کے ایک سینئیر اہلکار نے بتایا کہ ’آج (جمعے کو) ہسپتال میں دس افراد کو لایا گیا جن میں سے پانچ افراد کو گولیاں لگی تھیں۔‘اہلکار کے مطابق جن پانچ افراد کو گولیاں لگیں ان میں سے چار افراد کو چمن میں طبی امداد کی فراہمی کے بعد کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ہسپتال کے اہلکار کے مطابق پانچ افراد پتھر لگنے سے زخمی ہوئے تھے جن میں لیویز فورس کے اہلکار بھی شامل تھے۔اس سے پہلے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ 30 جولائی کو افغان فورسز نے چمن کے فرینڈشپ گیٹ پر پاکستان کی جانب جمع ہونے والے شہریوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی تھی اور پاکستان کی جانب سے دفاعی کارروائی کی گئی تھی۔پاکستان نے کہا ہے کہ افغان فورسز نے پوسٹ پر تعینات پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر بھی فائرنگ کی جس پر ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے معصوم شہریوں کے تحفظ کے لیے صرف دفاعی کارروائی کی تھی۔‘جمعرات کو افغانستان سے متصل چمن میں سرحد کی بندش کے خلاف احتجاج کے دوران فائرنگ سے ایک خاتون سمیت کم از کم تین افراد ہلاک اور 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔پاکستان کی
وزارت خارجہ کی جانب سے بیان سے پہلے بعض ایسی اطلاعات تھیں کہ دونوں ممالک کے سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی تھی۔یاد رہے کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں جمعے کو دوسرے روز بھی صورتحال کشیدہ رہی جبکہ فائرنگ اور پتھراؤ سے مزید دس افراد زخمی ہوگئے ہیں۔مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ ان پر سکیورٹی فورسز نے براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد لوگ زخمی ہوگئے۔ جبکہ بلوچستان کے وزیر داخلہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔چمن ہسپتال کے ایک سینئیر اہلکار نے بتایا کہ ’آج (جمعے کو) ہسپتال میں دس افراد کو لایا گیا جن میں سے پانچ افراد کو گولیاں لگی تھیں۔‘اہلکار کے مطابق جن پانچ افراد کو گولیاں لگیں ان میں سے چار افراد کو چمن میں طبی امداد کی فراہمی کے بعد کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ہسپتال کے اہلکار کے مطابق پانچ افراد پتھر لگنے سے زخمی ہوئے تھے جن میں لیویز فورس کے اہلکار بھی شامل تھے۔چمن سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جمعے کی صبح مظاہرین کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہوئی اور پاکستان افغانستان بارڈر کے قریب دونوں ممالک کے درمیان
شاہراہ پر دھرنا دیا۔اطلاعات کے مطابق اس دوران لیویز فورس کے اہلکاروں نے مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کی جس کے دوران مظاہرین نے لیویز فورس کے اہلکاروں پر پھتراؤ کرنے کے علاوہ ان کی ایک گاڑی کو بھی نذر آتش کیا۔ پتھراؤ سے لیویز فورس کے اہلکار زخمی ہوئے۔اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے قریب واقع قرنطینہ مرکز میں مزید توڑ پھوڑ بھی کی جس دوران مظاہرین پر فائرنگ سے پانچ مظاہرین زخمی ہوئے۔ جمعرات کو فائرنگ سے ایک خاتون سمیت تین افراد ہلاک اور 13 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔چمن سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جمعے کی صبح مظاہرین کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہوئی اور پاکستان افغانستان بارڈر کے قریب دونوں ممالک کے درمیان شاہراہ پر دھرنا دیا۔اطلاعات کے مطابق اس دوران لیویز فورس کے اہلکاروں نے مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کی جس کے دوران مظاہرین نے لیویز فورس کے اہلکاروں پر پھتراؤ کرنے کے علاوہ ان کی ایک گاڑی کو بھی نذر آتش کیا۔ پتھراؤ سے لیویز فورس کے اہلکار زخمی ہوئے۔اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے قریب واقع قرنطینہ مرکز میں مزید توڑ پھوڑ بھی کی جس دوران مظاہرین پر فائرنگ سے پانچ مظاہرین زخمی ہوئے۔ جمعرات کو فائرنگ سے ایک خاتون سمیت تین افراد ہلاک اور 13 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔جمعرات کو حسب معمول تاجر اور مزدور احتجاج کی غرض سے سرحد کے قریب جمع ہوگئے تھے جس پر انھیں سکیورٹی فورسز نے بتایا کہ وہ وہاں سے دور ہو جائیں تاکہ سرحد کو افغانستان جانے والوں کے لیے کھول دیا جائے۔اطلاعات کے مطابق جب تاجروں اور مزدوروں نے احتجاج
ختم کرنے سے انکار کیا تو اس میں تاخیر ہوئی جس پر افغانستان جانے والے لوگ اشتعال میں آگئے اور سرحد پر لگی رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔اطلاعات کے مطابق ان افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ اس دوران مشتعل افراد نے سرحد پر قرنطینہ مرکز اور نادرا آفس کو نذر آتش کیا۔چمن ہسپتال کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس واقعے میں ایک خاتون سمیت تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گولیاں لگنے سے 13 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔مظاہرین اور بعض سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ مظاہرین پر سیکورٹی فورسز نے براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد لوگ زخمی ہوگئے تھے۔تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے مظاہرین پر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کے الزام کو سختی سے مسترد کیا تھا۔کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سکیورٹی فورسز کے حکام سے پوچھا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انھوں نے براہ راست فائرنگ نہیں کی۔وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ اس بارے میں تحقیقات بھی کرائی جائے گی۔فائرنگ کے واقعے کے بعد افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن اور اس سے متصل سرحدی علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے۔بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کوئٹہ میں اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’ہمارے وہ بھائی جو احتجاج پر تھے وہ ریڈ زون میں داخل ہوگئے اور زبردستی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش
کی۔‘انھوں نے کہا کہ وہاں قرنطینہ سینٹر اور نادرا آفس کو بھی نذرآتش کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس دوران جو شرپسند عناصر تھے انھوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی۔بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے چمن میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (میپ) کے صوبائی سیکرٹریٹ کے پریس ریلیز میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ چمن میں نہتے اور بے گناہ شہریوں پر ایف سی نے فائرنگ کی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ چمن کے شہری اور سیاسی پارٹیاں تجارتی راستے کی مسلسل بندش کے خلاف گذشتہ دو ماہ سے احتجاج کررہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ چمن کے تجارتی راستے کو 2 مارچ والی پوزیشن پر بحال کیا جائے مگر ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا۔پشتونخوا میپ نے مطالبہ کیا کہ تجارتی راستے کو فی الفور کھولا جائے اور عوام کے آنے جانے پر پابندی کو ختم کیا جائے اور فائرنگ کے واقعے پر اعلٰی سطحی عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کر کے ملوث آفسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی بیان میں چمن بارڈر پر پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چمن بارڈر پر
رونما ہونے والا واقعہ کسی صورت سنجیدہ طرز عمل کی عکاسی نہیں کرتا۔بیان کے مطابق ’نہتے، غریب عوام، خواتین، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ رکھا گیا عمل نہ صرف قابل مذمت بلکہ قابل گرفت بھی ہے۔‘بیان کے مطابق پارٹی کی جانب سے گذشتہ پانچ مہینوں سے چمن بارڈر کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا جمعرات کو وہی کچھ ہوا۔عوامی نیشنل پارٹی نے اس واقعے کے خلاف تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں آج احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ عیدالاضحٰی کے بابرکت ایام میں گذشتہ روز دو دن کے لیے خیر سگالی کے طور پر چمن بارڈر پر دروازہ پیدل آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا لیکن جمعرات کو پھر لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی جس سے لوگوں میں بے چینی اور اضطراب بڑھنے لگا اور نتیجتاً افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثنا اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’چمن کا سرحدی مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں تھا کہ اس پر اپنے اور ہمسایہ ملک کے ساتھ جنگ چھیڑ دی جاتی۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں