اسرائیل کی نجی ہیکنگ کمپنی کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک کے صحافیوں، انسانی حقوق کی رہنماؤں، سیاست دانوں اور یہاں تک وزرائے اعظم اور صدور کے موبائل فون ہیک کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔اسرائیلی کمپنی کی جانب سے تقریبا دنیا بھر کے ایک ہزار افراد کے موبائل فونز کی جاسوسی کیے جانے کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا اور لوگ مذکورہ معاملے پر مزید تفتیش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سمیت دیگر 17 صحافتی اداروں کی مشترکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسرائیلی ہیکنگ فرم نے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے موبائل فون ہیک کیے۔رپورٹ کے مطابق صحافتی اداروں کی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ اسرائیلی فرم ’این ایس او‘ نے ایک ہزار صحافیوں کے موبائل فون تک رسائی حاصل کی اور مجموعی طور پر 50 ہزار موبائل نمبرز کا جائزہ لیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب تک سب سے بڑے ہیکنگ اسکینڈل کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی فرم نے کسی نہ کسی طرح کم از کم 37 اسمارٹ موبائل فونز کو ہیک کرکے ان سے ہر طرح کا ڈیٹا حاصل کیا۔مذکورہ رپورٹ ابتدائی طور پر واشنگٹن پوسٹ اور دی گارجین سمیت دیگر نشریاتی اداروں نے شائع کی تھی، جس پر امریکا اور یورپ کے 17 بڑے نشریاتی اداروں نے مشترکہ طور پر تحقیق کی۔تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اسرائیلی فرم نے 37 موبائل فونز کو ایک خاص طاقتور ہیکنگ سافٹ ویئرز کے ذریعے ہیک کرکے ان کے میسیجز، کال ریکارڈ، فون نمبرز، ای میل اور وائس اسپیکر تک رسائی حاصل کی۔اسرائیلی فرم نے جن 37 موبائل فونز کو ہیک کیا، ان میں 2018 میں ترکی میں قتل کیے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی رشتے دار دو خواتین بھی شامل ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے شائع کی گئی تفتیشی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فرم نے تقریبا ایک ہزار افراد کو نشانہ بنایا، جن میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکنان، قانون دان، سیاست دان اور یہاں تک کے بعض ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور بھی شامل ہیں۔اسرائیلی کمپنی نے بڑے پیمانے پر عرب سیاست دانوں، کاروباری حضرات اور سربراہان مملکت کو بھی نشانہ بنایا اور ان کے موبائلز تک رسائی حاصل کی۔مذکورہ ہیکنگ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا اور لوگوں نے اس ضمن میں مزید تفتیش کا مطالبہ کردیا۔تاہم دوسری جانب ’این ایس او‘ گروپ نے مذکورہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسکینڈل کو اپنے خلاف سازش قرار دیا۔ہیکنگ فرم نے واضح کیا کہ وہ مقتول صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے قبل یا بعد میں ان کی کسی بھی رشتے دار خاتون کے فون ہیک کرنے میں ملوث نہیں۔ادارے نے واضح کیا کہ وہ دنیا بھر کی حکومتوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سمیت کرپشن کو روکنے کے لیے خدمات فراہم کرتا ہے اور حکومتوں کو فراہم کی جانے والی خدمات میں ادارے کی کوئی ذاتی دلچسپی نہیں۔اگرچہ یہ واضح ہے کہ اسرائیلی فرم نے دنیا بھر کے 50 ہزار نمبرز اور ایک ہزار افراد کے موبائل فونز تک رسائی کی اور 37 موبائل فونز کو مکمل طور پر ہیک کرکے ان سے ڈیٹا بھی حاصل کیا۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیلی فرم نے یہ کام کس کے لیے کیا اور کیوں کیا؟ادارے کے مطابق وہ اپنی خدمات صرف حکومتوں کو فراہم کرتا ہے اور عام طور پر دہشت گردی، انتہاپسندی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومتوں کو خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔خیال کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فرم نے مذکورہ خدمات دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں کو دی ہوں گی اور اسے فونز کو ہیک کرنے کا ٹارگٹ کسی ایک نہیں بلکہ متعدد ممالک کی حکومتوں نے دیا ہوگا لیکن اس ضمن میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔خصوصی سافٹ ویئر کی مدد سے اسرائیلی فرم نے موبائل ہیک کیے، رپورٹ—فائل فوٹو: اے ایف پی برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق اسرائیلی فرم نے (Pegasus) نامی سافٹ ویئرز کے ذریعے ہیکنگ کا کام سر انجام دیا۔مذکورہ سافٹ ویئر موبائل فونز کو ہیک کرنے کے لیے وائرس کی طرح کام کرتا ہے اور اسرائیلی فرم نے اس پر اتنی تحقیق سے کام کیا کہ اب یہ سافٹ ویئر خود بخود موبائل فون میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر مذکورہ سافٹ ویئر وائرس کی شکل میں بھیجا جاتا تھا مگر اب یہ سافٹ ویئر خود ہی موبائل کے آپریٹنگ سسٹم کی خرابیوں کو غنیمت جان کر موبائل میں داخل ہوجاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق (Pegasus) سافٹ ویئر کسی بھی آئی او ایس اور اینڈرائڈ فون کے آپریٹنگ سسٹم میں تھوڑی سی بھی خرابی ہونے کی وجہ سے بھی موبائل میں داخل ہو سکتا ہے اور صارف یا آپریٹنگ سسٹم چلانے والی کمپنی کو کسی چیز کا احساس دلائے بغیر موبائل کے ہرطرح کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔موبائل میں داخل ہونے کے بعد مذکورہ سافٹ ویئر تصاویر، ویڈیوز، فون نمبرز، ای میل اور اسپیکر سمیت ہر طرح کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے اسی کی کاپی ادارے کو بھیج دیتاہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں