میرا مذہب مجھے غیر مسلموں کی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، محمد علی کلے کو ان الفاظ کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی؟

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)اکثر ہماری نظروں سے ایسی خبریں گزرتی رہتی ہیں کہ غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور اکثر اوقات ہم اس خبر کو سن کر چند لمحے تک اس فرد کی قسمت پر رشک کرتے ہیں اور اس کے بعد آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے کا مطلب اس کی زندگی کو یکسر تبدیل ہو جانا ہوتا ہے۔

وہ ایک نئی شناخت اپنا لیتا ہے اور ایسے موقع پر اسے شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو کہ آسان نہیں ہوتا اور اگر کوئی انسان بین الاقوامی شہرت کا بھی حامل ہو تو اس صورت میں اس کا اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اور بھی دشوار ہو سکتا ہے۔امریکہ سے تعلق رکھنے والے کیشیز کلے ایک سیاہ فام امریکی باکسر تھے جس نے 1960 میں امریکہ کے لیے اولمپک میں گولڈ میڈل بھی جیتا تھا۔ یہ امریکی معاشرے کا وہ وقت تھا جب کہ ملک بھر میں سیاہ فام افراد اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہے تھے اور سفید فام افراد ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے تھے-یہی وجہ تھی کہ گولڈ میڈل جیتنےکے باوجود کیشیز کلے کسی بھی قسم کی سرکاری حوصلہ افزائی سے محروم رہا یہاں تک کہ ایک بار جب کیشیز کلے اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے ایک ریسٹورنٹ گئے تو انتطامیہ نے انہیں اور ان کے دوستوں کو سیاہ فام ہونے کے سبب اندر داخل ہونے سے بھی روک دیا۔اس بات نے انہیں بہت دل برداشتہ کر دیا تھا اور انہوں نے اپنا گولڈ میڈل اٹھا کر دریا میں پھینک دیا اور اپنے اندر کے غصے کو باکسنگ میں نکالنا شروع کر دیا اور معاشرے کے اس عدم توازن اور رنگت کی بنیاد پر ہونے والی تفریق سے پریشان رہنے لگے۔ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئين بننے کا سال کیشیز کلے کی شہرت اور مقبولیت میں اضافے کا سال تھا مگر اسی سال اسلام کی قبولیت کے اعلان نے ان کی شہرت میں مذيد اضافہ کر دیا۔ اور انہوں نے محمد علی کلے کے نام کو اپنانے کا بھی اعلان کر دیا-

اب وہ ایک باکسر ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا کے ان لوگوں کے لیے ایک مثال بھی بن گئے جو رنگت کی بنیاد پر تفریق کا شکار تھے۔محمد علی کی زندگی اب جیسے ترقی یافتہ ملک میں دوہرے مسائل کا شکار ہو گئی ایک جانب تو ان کو سیاہ فام ہونے کے سبب پہلے کی تفریق کا سامنا تھا اور اب اسلام قبول کرنے کے سبب ان کے لیے پریشانیاں بڑھنے لگی تھیں۔سال 1966 میں جب امریکہ اور ویتنام کی جنگ کا آغاز ہوا تو اس وقت ہر امریکی شہری کو اس بات پر پابند کیا گیا کہ وہ جنگ میں حصہ لے گا لیکن انہوں نے اس جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ میرا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں کسی ایسی جنگ میں حصہ لوں جس کی اسلام میں اجازت نہ ہو ساتھ ہی میں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ غیر مسلموں کی جنگ میں حصہ لینا اسلام میں جائز نہیں ہے۔امریکی حکومت کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ ایک سیاہ فام نو مسلم ان کے حکم کی تکمیل سے انکار کر رہا تھا جس کے نتیجے میں ان کو سخت ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑا- ان کے جیتے گئے سارے انعامات و اعزازات ان سے چھین لیے گئے۔ان کو باقاعدہ مجرم قرار دے دیا گیا اور جرمانہ بھی لگا دیا گیا جس کے بعد محمد علی کلے سے حکومت کے ان اقدامات کے خلاف طویل قانونی جنگ کا آغاز کر دیا جو کہ تقریباً چار سال تک جاری رہی۔ چار سال بعد عدالت نے محمد علی کلے کے اصولی مؤقف کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کے اوپر لگائے گئے سارے الزامات بھی واپس لے لیے گئے۔اور اس کے بعد محمد علی کلے کو دوبارہ سے باکسنگ رنگ میں کھیلنے کی اجازت بھی مل گئی اور اس کے بعد چار سالوں کے بعد انہوں نے بڑی بڑی لڑائیاں جیتیں۔ جون 2016 میں محمد علی کلے پارکسزم کی بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب انتقال فرما گئے- مگر ان کا شمار دنیا کے ان نو مسلم افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری دنیا میں بہت شہرت پائی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں