پنجاب حکومت کی کامیاب حکمتِ عملی اور سخت مالیاتی نظم و ضبط کے نتیجے میں صوبے کا 31 سال پرانا گندم کموڈٹی قرض مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ 13 ارب 80 کروڑ روپے کی آخری قسط نیشنل بینک کو ادا کر دی گئی، جس کے بعد پنجاب کے شہری 30 سال سے زائد پرانے قرض کے بوجھ سے آزاد ہوگئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے فیصلوں کو صوبائی تاریخ میں گڈ گورننس کی ایک اہم مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ قرض گندم کی خریداری کے باعث پیدا ہوا تھا، جب اوپن مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر گندم خریدی گئی، جس سے آٹے اور روٹی کی قیمتیں بڑھ کر عوام پر مہنگائی کی صورت میں اثر انداز ہوئیں۔ ماضی میں محکمہ خوراک صوبے میں پیدا ہونے والی گندم کا تقریباً 14 فیصد (35 تا 40 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ) خریدتا تھا، جس سے 70 لاکھ میں سے صرف دو تا چار لاکھ کسان ہی مستفید ہوتے تھے۔ اگر یہ پالیسی جاری رہتی تو مارچ 2024 تک قرض 1080 ارب روپے اور جون 2024 تک 1.15 کھرب روپے تک پہنچ جاتا، جو صوبائی بجٹ کا تقریباً 35 فیصد بنتا۔
پنجاب حکومت نے قرض ختم کرنے کیلئے 761 ارب روپے صوبائی بجٹ سے ادا کیے۔ بروقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں صوبہ ماہانہ 50 کروڑ روپے سود ادا کرنے پر مجبور ہوتا۔ قرض کی مکمل ادائیگی کے بعد پنجاب اپنے تمام گندم ذخائر کا مکمل مالک بن گیا۔ سیکرٹری خزانہ پنجاب مجاہد شیردل نے کہا کہ 675 ارب روپے کی ادائیگی کے ساتھ صوبہ تین دہائیوں بعد مقامی بینکوں کے قرضوں سے آزاد ہو گیا ہے، جو مالی خودمختاری کی ایک تاریخی مثال ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں