اسلام آباد(آئی این پی)سابق سینیٹر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ہیومن رائٹس سیل کے صدر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں زیر حراست 2افراد کی موت کی نئے سرے سے تحقیقات ہونی چاہئیں ، پچھلے ایک سال کے دوران زیر حراست رپورٹ ہوئی ہیں جن کی تحقیقات ایف آئی اے کے ذریعے ہونی چاہئیں اور جس کی نگرانی نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کرے جیسا کہ پچھلے سال نومبر میں انسداد دہشتگرد اور زیر حراست قتل کے بارے میں قانون سازی ہوئی تھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ساتھ ایک میٹنگ میں پولیس نے اس بات کی تصدیق کی کہ گذشتہ ایک سال کے دوران زیر حراست دو اموات ہوئی ہیں۔ ایک I-9 پولیس سٹیشن میں ہوئی ہے اور دوسری رمنا پولیس سٹیشن G-11 میں ہوئی ہے۔ ان دونوں کیسوں میں ایف آئی اے کی بجائے پولیس نے تحقیقات کی تھیں۔ جب دونوں اموات کی میڈیکل رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ یہ دل کا دورہ پڑنے سے ہوئیں ہیں تو دونوں مقدمات بند کر دئیے گئے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ تحقیقات ایف آئی اے کو NCHR کی نگرانی میں کرنی چاہیے تھیں نہ کہ پولیس کے ذریعے کیونکہ یہ تحقیقات صرف پولیس کی جانب سے ہوئی تھیں اور یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایس تحقیقات NCHR کے ذریعے کرانے کا قانون اس لئے بنایا گیا تھا کہ متوفین کے پسماندگان مختلف دبا ئوکی وجہ سے قانونی راستہ اختیار کرنے میں پرہیز کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ NCHR کو مالی مدد کی فراہمی کے لئے ایک ادارہ جاتی میکنزم قائم کیا جائے اور اس کی نگرانی میں تحقیقات کرے۔ پاکستان نے تشدد کے خلاف کنونشن پر 2010میں دستخط کئے اور اس طرح تشدد اور زیر حراست اموات کے متعلق قوانین بنائے گئے۔ قانون کے نافذ ہونے میں 12سال لگ گئے لیکن یہ اب تک آپریشنل نہیں ہوا۔ کیا ریاست اس قانون کو آپریشن میں لانے کے لئے مزید ایک دہائی انتظار کرے گی؟ انہوں نے کہا کہ یہ قانون گذشتہ سال 4نومبر کو منظور ہوا تھا لیکن اس سے آپریشن میں لانے کے لئے اب تک کوئی ادارہ جاتی میکنزم نہیں بنایا گیا۔ اس جانب پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ان دونوں اموات جو کہ وفاقی دارالحکومت میں ہوئی ہیں کی قانون کے مطابق نئے سرے سے تحقیقات ہونی چاہئیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں