رپورٹ: مریم صدیقہ
راولپنڈی (پی این آئی) ریسٹورنٹس کیٹرز سویٹس اینڈ بیکرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ممتاز احمد نے کہاکہ پنجاب میں پلاسٹک بیگزبنانے کے ساڑھے چار لاکھ یونٹس موجود
ہیں،ان میں ساڑھے سات لاکھ ملازمین کام کرتے ہیں،اتنی بڑی انڈسٹری پرپابندی عائد کی جارہی ہے،لیکن اس کے متبادل باضابطہ طور پر کوئی حل نہیں نکالا گیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کامتبادل پہلے فراہم کیاجائے،اور اس پر پابندی بعد میں نافذ کی جائے،پلاسٹک بیگز پرپابندی کااطلاق فقط راولپنڈی میں ہی نہیں،بلکہ پورے پنجاب میں بلاتفریق کیاجائے،مشروبات پینے کے لئے استعمال ہونے والی اسٹرا کی ٹیکس فری فیکٹریاں لگائی جائیں جوحکومتی اقدامات کے مطابق اسٹرا بنائیں،کپڑے کے تھیلے بنانے کے لئے کپڑے کی ملوں کوپابند بنایاجائے کہ وہ اپنی مل میں پائے جانے والے فالتو کپڑ ے کواستعمال میں لاکر چھوٹے بڑے سائیز کے تھیلے بنائے۔
چیئرمین راولپنڈی ریسٹورنٹس، کیٹرز، سویٹس اینڈ بیکرز ایسوسی ایشن ممتاز احمد،جنرل سیکرٹری راجہ عدنان محمود، ایگزیکٹو ممبر شاکر شریف نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی حسن وقار چیمہ اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل مجاہد عباس سے “بین آن سنگل یوز پلاسٹک” موضوع پراہم میٹنگ کی، اس موقع پر کامران خان،عمران،مبین یعقوب، چوہدری شہزاد،شیخ نذر،نوید اقبال و دیگر بھی موجود تھے،
ا س موقع پر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ممتاز احمد نے کہا کہ حکومتی اقدام کی مکمل حمایت کرتے ہیں، لیکن یہ طریقہ کار درست نہیں، لاہور اور کراچی میں فیکٹریاں زیادہ ہیں۔انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے تھا کہ اس کے نقصانات پر آگہی فراہم کرتے، متبادل چیز کی قیمت زیادہ ہے، جس سے براہ راست کسٹمر متاثر ہوگا۔ انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہم سے پوچھتے ہیں کہ پلاسٹک بینگز بنانے والی فیکٹریاں کہاں کہاں ہیں،جب کہ ڈیپارٹمنٹ کو خود سے ان فیکٹریوں کا علم ہونا چاہیے۔ پانی والی بوتل کے میٹرئیل کاہی گلاس بن رہاہے،گلاس پرپابندی ہے، جب کہ بوتل پرپابندی نہیں،اس کی وضاحت درکارہے،اگرکوئی میٹریکل ریسائیکل ہوسکتاہے تو اس کی اجازت ملنی چاہیے،پالیسی بنانے والے حکام اس فیصلے پرنظرثانی کریں۔ ممتا ز احمد کاکہناتھاکہ بہاولپور،فیصل آباد،ملتان حکومتی احکامات سے بے خبر ہیں،لہذا فقط راولپنڈی کوہی نشانہ نہ بناجائے ہماری درخواست ہے کہ پورے پنجاب میں اس کااطلاق بلاتفریق کیاجائے،پاکستان میں کوئی ایسی فیکٹری موجود نہیں جو مشروبات پینے کے لئے استعمال ہونے والی اسٹرابناتی ہو، اسٹرا چین میں بنائی جاتی ہیں،جسے منگوانے کے لئے زرمبادلہ درکارہے،لہذا ٹیکس فری فیکٹریاں لگائی جائیں جوحکومتی اقدامات کے مطابق اسٹرا بنائیں،لوگوں کوبھی آگہی دی جائے،کپڑے کے تھیلے بنانے کے لئے کپڑے کی ملوں کوپابند بنایاجائے کہ وہ اپنی مل میں پائے جانے والے فالتو کپڑ ے کواستعمال میں لاکر چھوٹے بڑے سائیز کے تھیلے بنائے۔میٹنگ میں انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ راولپنڈی پنجاب سے مس انضاء نیازی نے بریفنگ دی اور کہا کہ ہمارے ٹارگٹ مینوفیکچررز، کنزیومرز، پلاسٹک بیگز، کولیکٹرز اور پلاسٹک کو ریسائیکل کرنے والے عناصر ہیں۔ حکومت پنجاب عوام کو صحت مند ماحول دینے کی خواہاں ہے،ہم سب کو مل کرایک صاف ماحول تشکیل دیناہوگا۔
اس پر ڈپٹی کمشنر حسن وقار چیمہ اور اے ڈی سی مجاہد نے کہا کہ 5جون 2024 ڈیڈ لائن ہے۔ جس میں کسی طرح کی توسیع نہ ہوگی۔ اعلی حکام کی جانب سے سختی سے عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، 22 اپریل سے ہم نے پلاسٹک بیگز کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا، جون تک کافی وقت ہے، لہذا مزید مہلت دینا ممکن نہیں، 5 جون سے کریک ڈاؤن ہوگا،اس موقع پر میٹنگ شرکاء نے بتایا کہ لاہور میں 5000 پلاسٹک بیگ بنانے والی فیکٹریاں ہیں۔ جنھیں مزید ایک سے دو مہینے کی مہلت درکار ہے، حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے، بائیوڈیگریڈیبل بیگ یا کپڑے کا تھیلہ کا آڈر دینے میں وقت درکار ہوگا۔اس موقع پر حاجی شیخ نذر نے کہا کہ پلاسٹک بیگز کی بڑی تعداد ایران سے کوئٹہ سمگل ہوتی ہے، جو بہت باریک ہوتا ہے، جو دھڑا دھڑ فروخت ہورہے ہیں۔حکومت نوٹس لے تاکہ سمگلنگ کم ہو۔ اس پر ڈی سی جی مجاہد عباس نے کہا کہ حکومت سمگلنگ کی روک تھام کرے گی،پلاسٹک بیگز ماحول اورانسانی صحت کے لئے خطرہ ہیں،آپ سب بائیوڈیگریڈیبل بیگ یا کپڑے سے بنے تھیلوں کی ڈیمانڈ پیش کریں تاکہ سپلائی کا مسئلہ حل ہو۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں