ہری پور یونیورسٹی میں طالبہ کی اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف ہراسمنٹ کی درخواست، یونیورسٹی انتظامیہ کی کمیٹی نےتفتیش شروع کر دی، والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی

ہری پور(آئی این پی)ہری پور یونیورسٹی میں طالبہ کو اسسٹنٹ پروفیسر کی طرف سے مبینہ ہراسگی کا نشانہ بنانے کی خبریں منظر عام پر آنے سے تعلیمی و عوامی حلقوں سمیت والدین میں بھی سخت تشویش بے چینی پائی جا رہی ہے جب کہ ڈی پی او ہری پور نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مذکورہ مبینہ افسوسناک واقعہ سمیت تین سالوں میں رپورٹ کیے گئے جنسی ہراسگی کے واقعات اور نتائج بھی طلب کر لیے ہیں کہ اگر کوئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں تو متاثرین کو کس شکل میں ریلیف اور غلط کاروں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق شعبہ پبلک ہیلتھ کی ایک طالبہ سے ہراسگی کے حالیہ مبینہ واقعہ کے بعد بعض یونیورسٹی طالبات نے اپنے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی خواتین کشمالہ طارق سے بھی مذکورہ مبینہ واقعہ کی شفاف انکوائری کروا کر انصاف کے تقاضے پورے اور مروجہ قواعد کے مطابق سخت اقدامات کا کر کے طالبات کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جب کہ ذرائع نے یونیورسٹی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ شعبہ پبلک ہیلتھ کی ایک طالبہ کی طرف سے موصولہ درخواست پر یونیورسٹی انتظامیہ نے دو سینئر ترین پروفیسرز،ڈین، ڈائریکٹر اور خاتون چیف پراکٹر پر مشتمل کمیٹی بنائی جس نے انکوائری شروع کی تاہم مذکورہ طالبہ مبینہ ہراسگی کے واقعہ کے خلاف شکایت کو جاری نہیں رکھنا چاہتی۔

دریں اثنا یونیورسٹی ذرائع کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ہراسگی کی مبینہ طور پر تین شکایات موصول ہوئیں جن میں سے ایک ملازم پر الزام ثابت ہونے پر اسے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے جب کہ دو شکایات واپس لے لی گئی ہیں البتہ تاحال یونیورسٹی کی کسی خاتون فیکلٹی ممبر کی طرف سے اس قسم کی کوئی شکایت یونیورسٹی انتظامیہ کو موصول نہیں ہوئی۔ادھر سنجیدہ شہری و تعلیمی حلقوں،والدین اور سول سوسائٹی کی طرف سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی اور ضلع میں سرکاری سطح پر قائم انسداد ہراسگی کمیٹیاں جو قائم کی گئی ہیں ان کی فعالیت و کردار کیا ہے اس کی بھی انکوائری اور یونیورسٹی کے اندر انسداد ہراسگی سیمینار کر کے آگاہی دی جائے کہ ایسی افسوسناک صورتحال کو وقوع پذیر ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے اور متاثرہ طالبات یا اسٹاف کن قوانین کے تحت کہاں سے ریلیف حاصل کر سکتے ہیں تا کہ شعور بیدار ہو اور ایسی صورتحال کے وقوع پذیر ہونے سیقبل ہی اس کا تدارک کیا جا سکے تا کہ یونیورسٹی سمیت جہاں جہاں خواتین کام یا تعلیم حاصل کر رہی ہیں انھیں محفوظ اور ہراسگی سے پاک ماحول فراہم کیا جا سکے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں

close