پشاور(آ ئی این پی)خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کے وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ پنشن نظام ختم نہیں کیا،اس میں اصلاحات لائی جارہی ہیں، پنشن ختم نہیں ہورہی بلکہ اسے مزید محفوظ بنارہے ہیں، پنشن کے پی کاسب سے بڑابجٹ چیلنج ہے جو 2005 میں 1ارب روپے سے کم تھا، آج ٪9500 اضافے کیساتھ 83 ارب تک پہنچ گیا ہے، یونہی چلتا رہا تو صوبے کے پاس بجٹ میں سے پنشن اور تنخواہوں کی ادائیگیوں میں ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا، 1935 کے ریٹائرڈ افراد پنشن لیتے ہوئے پائے گئے ہیں، ایک ریٹائرڈ ملازم کی پنشن ایک صدی تک اس کے شجرے نصب میں چلتی رہتی ہے۔
ان حالات سے بچنے کیلئے اصلاحات ناگزیر ہیں، پہلی دفعہ پنشن فنڈز سے سرمایہ کاری کی جارہی ہے، جس میں فرد سرمایہ کاری کی قسم کا انتخاب خود کرے گا، سروس کے اختتام پر ملازم پنشن لینے یا سرمایہ کاری جاری رکھنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار مند ہوگا، خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کے وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر یکے بعد دیگرے ٹوئیٹس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پختونخوا حکومت کا نئے ملازمین کیلیے کنٹریبیوٹری پنشن متعارف کرانیکا قدم کسی بھی پاکستانی حکومت کی طرف سے سب سے اہم مالیاتی اصلاحات ہیں۔ جس سے لاکھوں ملازمین کی پنشن محفوظ ہوگئی ہے۔پنشن کے پی کاسب سے بڑابجٹ چیلنج ہے جو 2005 میں 1ارب روپے سے کم تھا لیکن بروقت اصلاحات نہ ہونے سے آج ٪9500 اضافے کیساتھ 83 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ پنشن کے اس نئے نظام سے متعلق منفی تصورات کو ذائل کرنے کیلئے انہوں نے اس پنشن کے طریقہ کار کو وضع کرتے ہوئے کہا کہ کنٹریبیوٹری پنشن کے تحت ملازم اور حکومت کی مالی شراکت سے ایک ملازم کا پنشن فنڈ بنتا ہے، جس سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے، جس میں فرد سرمایہ کاری کی قسم کا انتخاب خود کرتا ہے۔
سروس کے اختتام پر ملازم پنشن لینے یا سرمایہ کاری جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ایک اور ٹوئیٹ میں بتایا گیا کہ اس سسٹم کے متعدد فائدے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ملازمین کی پنشن کے لیے فنڈنگ محفوظ ہوتی ہے، اور اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ ملازمین کی پنشن خطرے میں پڑجائے۔ اس کے علاوہ یہ کہ ملازمین پنشنری فوائد واپس بھی لے سکتے ہیں چاہے وہ 25 سال کی سروس سے پہلے ریٹائر ہو جائیں۔اپنے چوتھے ٹوئیٹ میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ صوبائی اسمبلی سے سول سرونٹ ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کی منظوری کے بعد کنٹریبیوٹری پنشن پروگرام نئے ملازمین کی سروس کی شرائط کا حصہ ہوگا۔ یہ موجودہ ملازمین پر لاگو نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ رضاکارانہ طور پر اس میں داخل ہونا نہ چاہیں۔ دنیا میں تقریباً ہر دوسرے ملک نے غیر فنڈڈ، defined benefit پنشن پروگراموں سے کنارہ کشی کی ہے۔ جوکہ اب بھی پاکستان میں جاری ہے۔اس پروگرام کے تحت موجودہ ملازمین سے تنخواہ میں کٹوتی کے نظام کے ذریعے پنشن فراہم کی جاتی ہے۔
انہوں نے ٹوئیٹ کیا کہ صرف کے پی کا پنشن بل اس دہائی کے اندر 80 بلین سے بڑھ کر 507 بلین روپے ہو جائے گا جو کہ بجٹ کا تقریباً نصف (%48) فیصد بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل پنشن اصلاحات اب ناگزیر ہوچکی ہیں۔ افسوس کی بات یہ کہ ماضی کی حکومتوں نے نااہلی اور قوت ارادی کی کمی کے باعث کبھی اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی۔ایک مرتبہ پھر پختونخوا نے اس مسئلے سے نمٹنے میں پاکستان کی رہنمائی کی۔ قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کی عمر کو 55 تک بڑھانا؛ ناقابل یقین حدتک پھولی ہوئی پنشن کی درجہ بندی کو کم کرنا؛ فائدہ اٹھانے والوں کو ۱ سے زیادہ پنشن لینے، فعال ملازمین کو پنشن لینے سے روکنا؛ پنشن فنڈ کو دوبارہ استعمال کرنے جیسی اصلاحات قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ پنشن ایک خاندانی شجرے میں 13 تہوں تک کھینچی جاسکتی تھی، ملازم کے انتقال کے بعد بھی ایک صدی تک جاری رہتی ہے۔ بیوہ، بیٹا، غیرشادی شدہ یا بیوہ بیٹی؛ متوفی بیٹے کی بیوی/بیٹا/غیر شادی شدہ یا بیوہ بیٹی؛ والدین؛ بھائی بہنیں اور اس طرح چلتی جاتی ہے۔ اس نظام میں اصلاحات کے تحت پنشن کو بیواؤں /بیوہ، بچوں اور والدین (عام طور پر نہیں لیکن ہم نے محسوس کیا کہ یہ ہمارے ثقافتی تناظر میں اہم ہے) تک محدود کرکے حل کیا گیا۔
نتیجے میں ہونے والی بچت نے ہمیں بیوہ اور بچوں کی پنشن کو پنشنرز کی رقم کے %75 سے بڑھا کر %100 کرنے کی اجازت دی۔وزیر خزانہ نے ٹوئیٹ میں بتایا کہ 1935 کے ریٹائرڈ افراد پنشن لیتے ہوئے پائے گئے ہیں، جبکہ 738 فعال ملازمین بھی ایک متوفی خاندان کے رکن کی پنشن لیتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ پنشن اصلاحات سے ان طریقوں کو روک دیا گیا ہے۔ تقریباً 5000 سے زائد افراد کیریئر کے عروج پر 45 سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے، ریٹائرمنٹ کے بدلے ٹیکسوں سے پنشن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں دوسری تنخواہ سے لطف اندوز ہورہیں۔ ابتدائی ریٹائرمنٹ کی عمر کو ۵۵ تک بڑھانے کے نتیجے میں 12 ارب/سال روپے سے زیادہ کی بچت ہوئی۔ پنشن فنڈ، جو پہلے استعمال نہیں کیا گیا تھا؛ اس کو سالانہ پنشن بل کے لئے حاصل کردہ سود سے جزوی طور پر ادائیگی کے لیے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ ڈی ایم جی اور پی سی ایس افسران نے گزشتہ سال سے پنشن کے لیے ادائیگی کے طور پر اپنا حصہ دینے پر اتفاق کیا۔پاکستان میں کسی دوسری حکومت، صوبائی یا وفاقی نے اس مسئلے کے حل کے لیے اتنا کچھ نہیں کیا جو ہمارے سسٹم میں ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ہم اپنے ملازمین کی پنشن کی حفاظت کر رہے ہیں اور ان کے مستقبل کی حفاظت کر رہے ہیں، انہیں خطرے میں نہیں ڈال رہے ہیں۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں