کراچی(آئی این پی)وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے آج صوبائی کابینہ میں معاہدے کی منظوری دے دی ہے اورفیصلہ کیا ہے کہ معاہدے کے مطابق دو ہفتے کے اندر ضروری ترامیم کابینہ سے منظور کروا کے اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کردی جائیں گی اور طے شدہ امور کے تحت اختیارات اور وسائل فراہم کیے جائیں گے۔بدھ کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی قیادت میں سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے اعلیٰ سطحی وفد کی ادارہ نورحق آمد،
حق دوکراچی تحریک کے قائد اور امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سمیت دیگررہنماؤں سے ملاقات،وفد میں صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، وزیر اطلاعات سعید غنی، وقار مہدی، امتیاز شیخ، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب و دیگر بھی موجود تھے۔ملاقات میں 2021 کے بلدیاتی قانون میں ترمیم کے حوالے سے جماعت اسلامی کے 29روزہ دھرنے میں سندھ حکومت سے کیے گئے معاہدے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ ہم نے آج صوبائی کابینہ میں معاہدے کی منظوری دے دی ہے اورفیصلہ کیا ہے کہ معاہدے کے مطابق دو ہفتے کے اندر ضروری ترمیمات کابینہ سے منظور کروا کے اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کردی جائیں گی اور طے شدہ امور کے تحت اختیارات اور وسائل فراہم کیے جائیں گے۔اس موقع پر نائب امراء جماعت اسلامی کراچی مسلم پرویز،ڈاکٹر اسامہ رضی،ڈاکٹر واسع شاکر، محمد اسحاق خان،راجا عارف سلطان، انجینئر سلیم اظہر،رکن سندھ اسمبلی وامیر ضلع جنوبی سید عبد الرشید پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈوکیٹ،سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری ودیگر بھی موجود تھے۔بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آج ہم جماعت اسلامی کے ہیڈ آفس آئیں ہیں،ہم شکر گزار ہیں کہ جماعت اسلامی نے حقیقتاََجمہوری طریقے سے احتجاج ریکارڈ کروایا جو کہ سب کا جمہوری حق ہے،ہم نے کابینہ میں فیصلہ کیا ہے
کہ معاہدے کے مطابق بلدیاتی قانون میں ترمیم کی جائے گی اور اس کے لیے صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو دو ہفتوں میں ترامیم کے بارے میں فیصلہ کرے گی،جماعت اسلامی کو 2021 کے بلدیاتی قانون پراعتراض تھا جس پر ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں،آئندہ بھی بات چیت کریں گے،ہم چاہتے تھے کہ کراچی کے اداروں میں بہتری لائیں اسی لیے ہم نے اداروں کو براہ راست صوبے کے تحت کیا تھا،واٹر بورڈ کا ادارہ اپنے پاوں پہ کھڑا نہیں ہوسکتا اس لیے سندھ حکومت کی طرف سے سرپرستی کی گئی لیکن اب معاہدے کے تحت ترامیم کی جائیں گی،ہمیں گزشتہ بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد ہی لوکل ایکٹ میں ترمیم کرنا تھی،ہم نے کراچی سمیت سندھ کی تمام اسٹیک ہولڈرزسے تجاویز بھی مانگی تھی،مردم شماری کے معاملے میں بھی ہم نے سی سی آئی میں مخالفت کی تھی،ہمارا واضح موقف تھا کہ سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے،ہم نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ فروری یا مارچ میں الیکشن کروانے چاہتے ہیں،ہم مارچ میں بلدیاتی انتخابات کروانے کی پوزیشن میں ہوں گے،ہم نے الیکشن کمیشن کے کہنے پرصرف 9 دنوں کے اندر جلدی میں بلدیاتی قانون بنایا،ہمیں 30 نومبر سے پہلے ہی لوکل باڈی ایکٹ بنانا تھا۔انہوں نے کہاکہ کے فور منصوبہ کے تحت کراچی کے شہریوں کو 650 ملین گیلن پانی ملنا تھا،
کراچی کو ابھی 250 ملین پانی مل رہا ہے باقی ہم 650 ملین گیلن پانی فراہم کرنے کے لیے کوشش کریں گے، انہوں نے واضح طور پر وفاق کی اس بات کی تردید کی کہ صوبائی حکومت 650ملین کی فراہمی کی مخالف ہے،انہوں نے کہاکہ آپ فیصلہ کریں پانی ہم دیں گے۔پروجیکٹ کو وفاق نے پورا ہونے سے رکوادیا اور کوئی ڈیڈ لائن بھی نہیں دی،وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ اب کے فور منصوبے کو خود بنائیں گے لیکن اب تک کچھ پتا نہیں کہ کیا ہوا،ہم جماعت اسلامی کی بات کی حمایت کرتے ہیں اور وفاق سے لے کر کراچی کو پانی فراہم کریں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم سید مراد علی شاہ کی قیادت میں وفد کا خیر مقدم کرتے ہیں،ہمارا واضح اور دوٹوک موقف ہے کہ بلدیہ کراچی کو مالیاتی، انتظامی اورسیاسی طور پر بااختیار کیا جائے،سندھ حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کو بااختیار کرنے کے حوالے سے پیش رفت ہورہی ہے،معاہدے میں موٹر وہیکل ٹیکس اور اکٹرائے ٹیکس بھی کراچی کے حوالے کرنے کی منظوری دی گئی اورپی ایف سی ایوارڈ کے تحت بھی کراچی کو حصے ملے گاجو کہ انتہائی خوش آئند ہے،واٹر بورڈ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا براہ راست ذمہ دار کراچی کا مئیر ہوگا،صوبائی کابینہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر بات کی گئی اور اتفاق کیا گیا جو کہ خوش آئند ہے،سندھ حکومت معاہدے پر عملدرآمد کرنے پر تیار ہے،جن چیزوں پر اتفاق نہیں ہوا ہے اس کے لیے مذاکرات جاری رہیں گے،ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں،
عدالتی فیصلہ بھی جماعت اسلامی کی طویل سیاسی وعوامی جدوجہد اور مؤقف کی تائید ہے۔انہوں نے کہاکہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے کہ اس کے لیے ہم آئینی جمہوری اور قانونی جدوجہد کریں گے،مردم شماری میں کراچی کی آدھی آبادی کو غائب کردیا گیا، سندھ حکومت صوبے کی آبادی کم کرنے کی بات تو کرتی ہے لیکن کراچی کی آبادی کے حوالے سے بات نہیں کرتی۔ہم چاہتے ہیں کہ نئی مردم شماری ڈی جور طریقے سے کروانے کے لیے سندھ حکومت اپنا کردار ادا کرے،وفاق نے کراچی کے لیے 650 ملین گیلن کو کم کرکے 250 ملین کم کردیاجو اہل کراچی کے لیے سراسر ظلم و زیادتی ہے،ہم کہتے ہیں کہ اگر وفاق کراچی کو نظر اندا زکررہا ہے تو صوبہ توکراچی کو اون کرے اور 650 ملین گیلن پانی فراہم کرے،ہم سندھ حکومت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے طلبہ یونین کی بحالی کا بھی فیصلہ کردیا ہے،وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا ادارہ نورحق آنے سے ہمیں امید ہے کہ ہمارے معاہدے کے مطابق فیصلے ہوں گے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں