کراچی (آئی این پی)امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ 31دسمبر کو سندھ اسمبلی کے باہر تاریخی دھرنا دیا جائے گا،عوام کی طاقت سے کالے بلدیاتی قانون کو واپس لینے پر مجبور کریں گے،جماعت اسلامی کالے قانون کو کسی صورت میں قبول نہیں کرے گی اور یہ قانون ہر اس چہرے پر کالک ملتا رہے گا جنہوں نے اندرون سندھ کے شہروں اور کراچی کے تین کروڑ شہریوں کے حقوق سلب کیے ہیں،پیپلزپارٹی کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 140-Aکی خلاف ورزی ہے، وڈیرے اور جاگیردار مقامی سندھی اور ہاری کو دبا کر اکثریت حاصل کرتے ہیں،
ایم اے جناح روڈ پر ”کراچی بچاؤ مارچ“میں کراچی کے عوام نے ثابت کردیا تھا کہ وڈیرے اور جاگیردار اقلیت میں ہیں،جماعت اسلامی کی حق دو کراچی مہم میں مسلسل تیزی آرہی ہے اور گزرتے دن کے ساتھ رابطہ عوام مہم میں اضافہ ہورہا ہے، 19دسمبر کو کراچی کے عوام نے وزیر اعلیٰ سندھ کو پیغام دیا تھا کہ کراچی کے شہری کالے بلدیاتی قانون کو مسترد کرتے ہیں۔وہ اتوار کو ضلع شمالی کے تحت پاور ہاؤس چورنگی نارتھ کراچی میں سندھ حکومت کے منظورہ کردہ کالے بلدیاتی قانون کے جبری نفاذ کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کررہے تھے۔مظاہرے سے امیرجماعت اسلامی ضلع شمالی محمد یوسف ودیگر نے بھی خطاب کیا۔مظاہرے کے شرکاء نے سندھ حکومت کے خلاف زبردست نعرے بھی لگائے۔
حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ کراچی میں ایک مرتبہ پھر سندھی مہاجر کی تفریق پیدا کرکے لسانیت وعصبیت کی سیاست کرنے کی سازش کی جارہی ہے،جماعت اسلامی ایسی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی اورلسانی سیاست کرنے والوں کو بے نقاب کرے گی۔انہوں نے کہاکہ کچھ سیاسی جماعتیں کالے بلدیاتی قانون کے خلاف صرف ڈرائنگ روم کی سیاست کررہی ہیں،2012اور2013میں ایم کیو ایم نے کراچی کے 14بلدیاتی محکمے پیپلزپارٹی کے حوالے کیے تھے۔ آل پارٹیز کانفرنس کرنے والے آج سڑکوں پر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟،یہ لوگ زبانی جمع خرچ کرکے عملاً پیپلزپارٹی کو سپورٹ فراہم کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی جواب دے کہ جعلی مردم شماری کی منظوری کیوں دی گئی؟،کوٹہ سٹم میں غیر معینہ مدت تک کیوں اضافہ کیاگیا، وزیر اعظم عمران خان نے گرین لائن کا افتتاح تو کیا لیکن آج تک بسیں نہیں چلائیں گئیں، 2005میں آخری بار پانی کا منصوبہ بنایاگیا تھا، 16سال میں آج تک پانی کی ایک بوند میں بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔
وفاق نے کراچی کے عوام کو 250ملین گیلن پانی دینے کا کہا تھا وہ بھی دیگر جعلی افتتاح کی طرح ثابت ہوا،ہم سوال کرتے ہیں کہ 1100ارب روپے کا پیکج کہاں خرچ کیاگیا؟۔ انہوں نے کہاکہ عدالت عظمیٰ سے پوچھتے ہیں کہ جتنے اقدامات آپ نے نسلہ ٹاور کے لیے تھے کیا حیات ریجنسی اور دیگر کے خلاف کیوں فیصلہ کرنے میں تاخیرکی جارہی ہے؟۔محمد یوسف نے کہاکہ سندھ اسمبلی کے وڈیروں اور جاگیرداروں نے بلدیاتی ترمیمی بل منظور کرکے کراچی کے عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے،کراچی کے عوام کالے قانون کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے،ہم اس بل کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں