لاہور (آئی این پی)پنجاب یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ملک کو درپیش سستی نامیاتی کھاد کی فراہمی کا اہم ترین مسئلہ حل کرنے کے لئے عملی تحقیق میں کارنامہ سرانجام دیا ہے اور بائیوماس سے بہترین نامیاتی کھاد بنانے کے لئے مقامی ٹیکنالوجی کی بدولت سستا یونٹ تیار کر لیا ہے۔ یہ یونٹ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے باٹینیکل گارڈن میں قائم کیا گیا ہے۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز احمد نے یونٹ کا افتتاح کر دیا ہے۔ اففتاحی تقریب میں پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، سابق ڈین فیکلٹی آف لائف سائنسز پروفیسر ڈاکٹر فردوس بریں، منصوبے کے مرکزی محقق شعبہ باٹنی کے ڈاکٹر محمد شفیق،معاون ڈاکٹر عائشہ نذیر اور دیگر محققین نے شرکت کی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نیاز احمد نے کہا کہ بائیو ماس ریسور س یونٹ عوام کو محفوظ سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار میں خودکفیل بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرے گا کیونکہ یہ نامیاتی کھاد انتہائی معیاری اور سستی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بائیو ماس ریسورس یونٹ کی ٹیکنالوجی زرعی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بائیو ماس ریسورس یونٹ سے 70 سے 100 فیصد سالڈ ویسٹ کو بہترین نامیاتی اور سستی کھاد کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی سے ٹیکنالوجی لے کر مطلوبہ جگہوں پر بائیوماس ریسورس یونٹ قائم کرنے سے حکومت کو اربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بائیوماس ریسورس یونٹ کی بدولت سالڈ ویسٹ سے پیدا ہونے والے ہوائی، آبی اور زمینی آلودگی کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جبکہ عوام کو مہنگی کھاد فروخت کرنے والوں سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی ملکی و معاشرتی سطح پر مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی اور ایسے تحقیقی منصوبوں کو فروغ دے رہے ہیں جو معاشی و سماجی مسائل حل کر سکیں۔
اس موقع پر ڈاکٹر فردوس بریں نے منصوبے سے متعلق بریفنگ دی انہوں نے کہا کہمحمود بوٹی اور لکھو ڈیر میں سالڈ ویسٹ کو الگ کرنا ایک چیلنج ہے اور اس طریقے سے آسانی سے سالڈ ویسٹ کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سالڈ ویسٹ کو سنٹرلائزڈ طریقے سے ٹھکانے لگانے پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں جس کی بچت کی جا سکتی ہے۔ مرکزی محقق ڈاکٹر محمد شفیق نے کہا کہ بائیوماس ریسورس یونٹ کا اہم حصہ مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کے کوڑا کرکٹ، درختوں کے پتے و ٹہنیوں سے معیاری نامیاتی کھاد تیار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ یونٹ کوڑا اکٹھا کرنے والی جگہ پر محفوظ ماحول میں لگایا جا سکتا ہے سالڈ ویسٹ الگ نہ ہو پانے کے باعث ماحولیاتی آلودگی اور سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر بھر سے کوڑا اکٹھا کر کے خاص جگہ پہنچانے پر اربوں روپے کے وسائل خرچ ہوتے ہیں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے حکومت سالانہ اربوں روپے بچا سکتی ہے نئی ٹیکنالوجی کو یونین کونسل کی سطح پر ٹرانسفر کرنے کے لئے معاونت کر سکتے ہیں۔ منصوبے کی معاون ڈاکٹر عائشہ نذیر نے کہا کہ جانوروں کی ہڈیوں، آلائشوں اور پودوں کی باقیات سے دیر پا نامیاتی کھاد تیار کی جا سکتی ہے انہوں نے کہا کہ رواں برس پنجاب یونیورسٹی میں قربانی کے جانوروں کی باقیات کو یونٹ کے ذریعے نامیاتی کھاد کی تیاری میں استعمال کریں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں