سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے استعفیٰ سے متعلق خاموشی توڑ دی،ناراض دوستوں کو منا نے کی کوشش کی لیکن مو جود بندشیں ختم نہ ہو نے پر مستعفی ہوا

کو ئٹہ(آئی این پی) سابق وزیر اعلیٰ بلو چستان جا م کما ل خان نے کہا ہے کہ ہم چا ہتے ہیں کہ مو جو دہ صو با ئی حکومت ترقی کے جا ری عمل کو برقرار رکھتے ہو ئے آ گے بڑھے،استعفیٰ سے قبل نا راض دوستوں کو منا نے اور ان کے تحفظا ت کو دور کر نے کی ہر ممکن کو شش کی لیکن مو جود بندشیں ختم نہ ہو نے پر مستعفی ہو ا،وزیر اعلیٰ کی سیٹ کسی کی ہے نہیں،آج ادھر ہے کل کسی اور کے پاس ہے اس سے پہلے کسی اور کے پا س تھی،چا ہتے ہے کہ ہو نے والے اقدام کا نتیجہ اچھا آ ئے، پارٹی صدارت کے حوالے سے پہلے والے سٹانس پر قائم ہوں،

دسمبر کا مہینہ شروع ہو نے کو ہے چا ہتے ہیں کہ ترقیاتی عمل میں رکاوٹ پیدا اور بجٹ ضا ئع نہ ہو،صو با ئی پی ایس ڈی پی میں اگر میری انفرادی نو عیت اور ذاتی فا ئدے کے منصو بے شامل ہیں تو اسے با لکل نکا ل دینا چا ہئے،میں اور میرے ساتھی خواہ مخواہ کی سنسنی خیزی نہیں چا ہتے،کو ئٹہ آ کر بلو چستان عوامی پارٹی کے عہدیداران،ممبرا ن کا اجلاس منعقد کرا نا چا ہتے ہیں جس میں انٹرا پارٹی اور دیگر امور کے مستقبل کے حوالے سے فیصلے کیے جا ئے۔میں نے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا صو با ئی اسمبلی کے رکنیت سے نہیں، حکمرا ن جما عت سے ہوں اپوزیشن بنچوں پر کیوں کر بیٹھوں گا۔

ان خیا لا ت کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز کو ئٹہ پہنچنے پر میڈیا نما ئندوں سے با ت چیت کر تے ہو ئے کیا سابق وزیر اعلیٰ بلو چستان جا م کما ل خان کا کہنا تھا کہ ہما ری کو شش ہو گی کہ آئندہ ڈیڑھ سال تک بھی صو بے میں جا ری ترقی عمل اسی طرح جا ری رہے، ہم کہتے ہیں کہ پا لیسیوں کا تسلسل برقرار رہنا چا ہئے حکومتیں آتی اور جا تی ہیں ہم نے جو پا لیسی بنا ئی اس پر عمل در آ مد ہو نا چا ہئے ہم نے بھی پچھلی حکومت کے بہت سے جا ری منصو بے پا یہ تکمیل تک پہنچا ئے اور اچھی پا لیسز پر عمل جا ری رکھا اسی نظریے کے تحت آ گے جا ئیں گے،انہوں نے کہا کہ ایک ڈیڑھ مہینے تک ان سے استعفیٰ ما نگنے کا سلسلہ چلا،ہم نے با ر با ر کو شش کی کہ نا راض دوستوں کو منا ئے اور کسی طریقے سے سسٹم کو پھر ٹریک پر لا ئے لیکن جب چیزیں بہتری جا نب گا مزن ہو تی تو اپوزیشن کی جا نب سے ایسا ماحول بنا دیا جا تا آخر میں پارٹی اور دوستوں کوغیر ضروری طور پرمیں رسک پرر کھنا بھی نہیں چا ہتا تھا،ہم نے چیزوں کو آ گے دیکھتے ہو ئے سوچا،وزیر اعلیٰ کی سیٹ کسی کی ہے نہیں،

آج ادھر ہے کل کسی اور کے پاس ہے اس سے پہلے کسی اور کے پا س تھی ان سارے محرکات کو دیکھتے ہو ئے میں نے محسوس کیا کہ اگر واقعی ما ئنس ون کا فارمولا پا رٹی، حکومت اور صو بے کے مفاد میں جا تا ہے تو جام کما ل کو ئی ایسا ضدی آدمی نہیں ہے کہ وہ آخر تک ڈٹا رہے چا ہے جو بھی نقصان ہو جا ئے اسی لئے ہم نے چیزوں کو مثبت انداز میں آ گے لے جا نے کیلئے مستعفی ہو نے کا فیصلہ کیا،ایک ماحول بنا ہم سب نے یعنی ہما ری اتحادی جما عتوں پا رٹی کے سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی و دیگر نے بندشوں کو ختم کر نے کی کوشش کی مگر جب بندشیں ختم نہیں ہو پا رہی تھی تو ہم نے سسٹم کی بہتری،پارٹی و جمہوری عمل کی خاطرایسا کیا،سب نے قر با نی دی،اتحا دی جما عتوں میں سے سب نے قر با نیاں دی جب حکومت ختم ہو تی ہے تو سارے لو گ ہٹ جا تے ہیں ہم چا ہتے ہیں کہ جو اقدام لیا گیا

اس کا نتیجہ اچھا آئے بلو چستان کا فا ئدہ ہو اور معاملات روانی سے آگے جا ئے یہ نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد اسی طرح کے سیاسی بحران کے ہم شکا ر ہو جس سے بلو چستان میں ترقی کا عمل سست ہو جا ئے ترقی کی رفتار کم ہو چیزیں گورننس کی طرف نہ جا ئے۔ میری قدوس بزنجو صاحب اور ان کی کا بینہ سے اپیل ہے کہ ہمیں اس فیز سے نکلنا چا ہئے ہم مزید انتظا ر نہیں کر سکتے،بجٹ جب پا س ہوا اس وقت اپوزیشن نے دھرنادیا اس کے بعد تھا نوں میں بیٹھے اس کے بعد میرے استعفیٰ سے قبل کی صورتحال بنی جس سے ڈیپارٹمنٹل اور ترقی کا عمل مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اب دسمبر ہے ایسا نہ ہو کہ سارا بجٹ ضا ئع ہو ہمیں ترقی اور سروسز کی جا نب توجہ مبذول کرا نی ہو گی تا کہ سیاسی بحران کے بعد سروسز اور ترقی کی کرا ئسز کا ہمیں سامنا نہ کر نا پڑے ہما ری جو بھی سپورٹ ہو گی ہم دیں گے ہم نے ساڑھے تین سال صو بے کے گورننس و دیگر معاملات کو چلا یا ہے اور اسے سمجھتے بھی ہے ہم اپنا ان پٹ دیتے رہیں گے ہمیں پبلک سروس اور ڈیلیوری کی جا نب تو جہ مبذول کرا نی ہو گی،

انہوں نے کہا کہ جہاں بلو چستان کا مفاد ہو وہاں ہر چیز پر کٹ لگا ئے جا م کما ل کی ذات سے کو ئی منصو بہ تعلق رکھتا ہے تو اس پر با لکل کٹ لگا ئیں مو جو دہ بجٹ کو میرے ہی دوست ظہور بلیدی نے پیش کیا تھا اور اپنی بجٹ تقریر میں ان سب منصوبوں کی سپورٹ کی تھی، میں نے پہلے کہا بھی اور ٹویٹ بھی کیا کہ حکومت ایک سبجیکٹ کو لیکر نہیں چلتی، میں یہ فیصلہ کر دوں کہ بلو چستان میں ہر جگہ پا نی نہیں ہو گا تو اس وقت تک ہم سڑکیں نہیں بنا ئیں گے جب تک سڑکیں مکمل نہیں ہوں گی تو ہم ہسپتال نہیں بنا ئیں گے اور جب تک پورے صو بے میں اسپتال نہیں بنا ئے جا تے اس وقت تک ہم کسی اور سیکٹر میں کا م نہیں کریں گے حکومتیں ہر شعبے میں کا م کر تی ہیں، نوجوانوں، غریبوں،تعلیم یا فتہ لوگوں کی سب کی ضروریات ہوا کر تی ہیں صو بے میں جا معات کی بھی ضرورت ہیں نو جوانوں کے لئے بلو چستان میں ہے کیا؟ تعلیم کے موقعے ہم انہیں دیتے ہیں کچھ اور سر گر میاں ہم ان کے لئے تیار کر تے ہیں،کھیل ضروری ہے اگر ہما ری حکومت تعلیم کو ترجیح نہ دیتی، صحت کے لئے فنڈز نہ رکھے جا تے، صا ف پینے کے پا نی کے لئے فنڈز مختص نہ کر تے، ترقی کے لئے فنڈز نہ رکھتے، ضلعی انتظا میہ سیٹ اپ کی بہتری کے لئے توجہ نہ رکھتے اور صرف صحت اور کھیل پر تو جہ دیتے با لکل وہ سارے کاٹ دیتے ہم نے تو بڑاپرپوشنل بجٹ بنا یا جس میں ہم نے ہر شعبے میں چیزیں رکھی، انہوں نے جن تین اضلا ع کی با ت کی ہے آپ دیکھیں آوران میں کیا ہے؟واشک دیکھ کر آجا ئے جی ہم نے وہاں ڈیمز بنا ئے ہیں،ہم مزید ڈیمز بنا رہے ہیں، پا نی کے منصوبے،شمسی نظام کے واٹر سپلا ئی اسکیمز بن رہی ہیں، سکولوں کے منصوبے ہیں صحت کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے صو بے کی تاریخ میں محکمہ صحت کا اتنا بڑا بجٹ کبھی نہ تھا جتنا پچھلے بجٹ میں دیا گیا ہے، ہمیں صرف سیاست کے حوالے سے چیزوں کو نہیں دیکھنا چا ہئے ہم اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور آپ ہما ری ٹیم میں تھے با قی پو ری کیبنیٹ ہما رے ساتھ تھی سب نے مل کے بجٹ پیش کیا تھا جس پر ہم نے میڈیا اور عوام کے سامنے پریس کانفنرنسز بھی کئے جس پر عوام نے بجٹ کو سراہا اور اس پر اپنے ڈیبیٹس کئے بلکہ ظہور بلیدی نے مجھ سے زیادہ ڈیبیٹس اس پر کئے ہیں جو چیز صو بے کے مفا د میں نہیں ہے اسے نکا ل دیا جا ئے اور اسے پبلک کے سامنے رکھے،انفرادی منصوبے با کل نکا ل دینے چا ہیے جو چیز صو بے کے مفاد میں ہے اسے قائم رکھے، حکومت ایک دو سال کے لئے نہیں بلکہ اس کے منصو بے پا نچ چھ اور سات سالہ ہوا کر تے ہیں جو آہستہ آہستہ تکمیل کی طرف جا تے ہیں اور پھر لوگوں کو فا ئدہ دیتی ہے، پارٹی صدارت کے حوالے سے میرا پہلا والا سٹانس ہے میں نے پہلے بھی کہا کہ ایک ٹویٹ کے حوالے سے چیزوں کو منسلک کیا گیا،میں کہہ چکا ہوں کہ ہر چیز ایک طریقہ کا ر سے چلتا ہیجام کما ل پارٹی کا صدر نہیں ہو سکتا تو اس کا طریقہ کا ر مو جو د ہے اگرمیں تحریری طور پر استعفیٰ دیتااور الیکشن کمیشن اسے منظور کر تا تو آج میں پارٹی کا صدر نہ ہو تا اور اگر پارٹی کی پو ری کونسل آتی اور کسی اور کا نا مزد کر تی اور اس کیلئے ووٹنگ ہو تی یا ایگزیکٹو کمیٹی میں کو ئی فیصلہ ہو تا خیر وہ چیزیں نہیں ہو ئی اب ٹا ئم بھی پورا ہو چکا ہے اب ہمیں اس با ت پو توجہ دینا ہے کہ انٹرا پا رٹی الیکشن کرا ئے اور جسے صدر اور جنرل سیکرٹری بننے کی خواہش ہے اسے سامنے آ نا چا ہئے جسے پبلک اور پارٹی سپورٹ کریں اسے با لکل آنا چا ہئے میرے الفاظ یہ تھے کہ اگر پارٹی کے کارکن اس با ت پر خوش نہیں ہے کہ جا م کما ل کوپا رٹی کا صدر رہنا چا ہئے تو میں اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو نے کا تیا ر ہوں جس کے بعد پارٹی کے عہدیداران میرے پا س آ ئے اور کہا کہ اس ٹویٹ کو ہٹا ئے کیو نکہ ہم چا ہتے ہیں کہآپ پارٹی صدارت کو جا ری رکھیں میرے لئے پارٹی صدارت اور وزیر اعلیٰ کی سیٹس ذمہ داریاں تھی ہم جب تک ہیں ہمیں ٹھیک طریقے سے ذمہ داریاں نبھا نی چا ہئے جب ہم احسن طریقے سے ذمہ داریاں نہ نبھا سکے تو کسی اور کو آنا چا ہئے میں بنچ ما رک کا بڑا بلیورہوں بہت سارے لوگوں نے کہا کہ نئی حکومت آ ئے گی تو کیا کرے گی میں نے کہا کہ اچھی با ت ہے نئی حکومت کو آنا چا ہئے میں تو کہتا ہوں کہ پا کستان میں بھی پا نچ سال کی بجا ئے چا ر سال بعد الیکشنز ہو نے چا ہیے تا کہ لوگوں کو جلد پتہ چلے کہ کو ن اچھا کا م کر رہا ہے میری خواہش ہے کہ مو جو دہ صو با ئی حکومت ہم سے زیا دہ اچھا کا م کرے تا کہ آنے والا اس سے زیا دہ اچھا کا م کرے ہم کبھی نہیں چا ہیں گے کہ کو ئی حکومت نا کا م ہوں لیکن توازن ضرور ہو ناچا ہئے کہ ہما ری حکومت نے بہتر کا م کئے اور اگلی حکومت کیا کا م کرے گی تا کہ عوام آئندہ رائے قائم کر سکے کو ن کس لئے بہتر تھا یا ہے،کوشش ہے کہ پارٹی کا اجلاس بلا ئے تا کہ عہدیداران اور ممبرن و ورکرز بیٹھ کر آْئندہ کیلئے ایک طریقہ کا ر بنا ئے کہ پارٹی کو کیسے اور کن چیزوں کے تحت آ گے لے جا نا ہے انٹرا پارٹی الیکشن کا طریقہ کا ر بنا ناہے یہاں آ ئے ہیں سارے دوستوں کو بلا ئیں گے اور ایک طریقہ کا ر بنا ئیں گے،اسمبلی بھی جاوں گا اسمبلی سے توڑی استعفیٰ دیا ہے ہم حکومت کا حصہ ہے لیکن اچھے مقصد کے لئے تنقید بھی دیں گے میں اور میرے ساتھ غیر ضروری طور پر سنسنی خیزی نہیں چا ہتے ہم چیزوں کو اچھے طریقے سے آگے لے جا نے کی کو شش کریں گے اور اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں