کتاب: جھوٹے روپ کے درشن، مصنف: راجہ انور، تبصرہ نگار: بریگیڈئر (ر) صولت رضا

ایک زمانہ تھا’ یونیورسٹی سے مراد صرف پنجاب یونیورسٹی تھی کم از کم صوبہ پنجاب میں یہی کیفیت تھی اور پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس الگ ہی منظر تھا۔ نہر کنارے واقع بار بار دیکھنے کی چیز تھی۔ سنگل سڑک نہر کے اس پار تھی۔ ہمارے کلاس رومز کی حد نہر کنارہ تھا۔

سیاستدان مصنف راجہ انور کی مقبول کتاب “جھوٹے روپ کے درشن” پنجاب یونیورسٹی کے نہر کنارے واقع نیو کیمپس کی راہداریوں اور گرد و نواح میں پروان چڑھنے والی رومانوی داستان ہے بظاھر اس میں دو ہی کردار نمایاں ہیں تاہم تیسرا “کردار” مصنف کا زور قلم ہے ۔

خوبصورت کتاب کا ٹائٹل پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کی تصویر سے مزین ہے شاید نیو کیمپس کی آج کل کی تصویر کی کتاب کے متن سے مماثلت ممکن نہیں ہوگی۔ بہرحال تعمیر ہوئے پچاس دہائیوں سے زائد عرصہ ہوگیا ہے لیکن آج بھی نیو کیمپس ہی کہلاتا ہے ۔ پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے حکم پر تعمیر ہوا اور روز اول سے ہی نیو کیمپس کہلایا بقول شخصے اگر یہ کارنامہ کسی جمہوری سربراہ نے انجام دیا ہوتا تو موصوف کے اسم گرامی کا کیمپس سے نتھی ہونا لازم تھا راجہ انور کی “جھوٹے روپ کے درشن” گرچہ ہمارے نیو کیمپس کو خیر باد کہنے کے دو برس بعد کی داستان محبت ہے لیکن صفحات پلٹتے ہوئے اپنے گذرے وقت کی گڈ مڈ یادیں گدگدانے لگتی ہیں۔ کتاب اکتیس خطوط پر مشتمل ہے جس میں چوبیس خط راجہ صاحب کے ہیں اور سات خط کنول نے راجہ صاحب کے نام انگریزی میں تحریر کئے جنہیں ترجمہ کے بعد کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔دونوں نے خط سینکڑوں کی تعداد میں لکھے ہوں گے لیکن کتاب کے قارئین کو رسائی اکتیس خطوط تک مل سکی ہے

کتاب میں 7 مئی 1972 کو لکھے گئے پہلے خط میں راجہ انور نے کنول کو “محترمہ” کہہ کر بات آگے بڑھائی ہے ۔قریبا” دو برس پر محیط “دوستانہ ” محبت کی کہانی قاری کو کتاب کے باب آخر”بیگم صاحبہ” تک جڑے رکھتی ہے ۔ محترمہ سے بیگم صاحبہ تک مصنف آستین پلٹ انداز تحریر کے ذریعے خطوط نویسی کو نئی جہت عطا کرتا ہے

دراصل یہ زمانہ لکھنے پڑھنے کا تھا ۔کچھ کچھ لکھنے کے لئے بھی چند سطور پڑھنا ضروری تھا ۔راجہ انور پہلے خط “محترمہ” میں کنول کو کچھ یوں اپنی پہلی نظر کے مجروح ہونے سے آگاہ کرتے ہیں

راجہ صاحب کے لئے سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ کنول بھی یونیورسٹی میں سرخ جھنڈا اٹھائے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ بلند کر رہی ہے ۔وہ حیران بھی ہیں کہ ایک بے پناہ آسودہ حال خاندان کی لڑکی جس کی ایک میجر سے منگنی ہو چکی ہے لیکن وہ مزید بہتر مستقبل کے لئے ایک سی ایس پی افسر سے شادی کی امید لگائے ہوئے ہے ۔کیا یہ لڑکی مارکسزم کی ابجد کو سمجھتی ہے ۔ راجہ انور کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شعبہ فلسفہ سے شعبہ ایجوکیشن کی کنول کے ساتھ خود مختار مستقبل کا “ایک پیج” ترتیب دینے کی فلسفیانہ کوشش کررہے ہیں ان کی اس مشقت سے کچھ کلاس فیلوز بھی واقف ہیں ۔ مصنف کی شعبہ ایجوکیشن کی طالبہ سے قلمی اور بالمشافہ دوستی کے دور اور اس سے چند برس پہلے ہمارا شعبہ صحافت شعبہ ایجوکیشن کا ہمسایہ تھا ۔ تعلقات بھی ہمسایوں ایسے تھے ۔معلوم نیہں ہم سے پہلے شعبہ صحافت کے کس طالب علم نے آدھی چھٹی کے وقت بلڈنگ کے اپر فلور سے نیچے گراؤنڈ پر جھانکتے ہوئے زور دار نعرہ بلند کیا “اوئے ماسٹرو” بس پھر کیا تھا جواب میں صحافت اور صحافیوں کے بارے میں چنیدہ غیر پارلیمانی الفاظ سے فضا گونجتی اور ہمارے قیام کے اڑھائی برس دونوں جانب سے گونجتی ہی رہی ۔ظاہر ہے جب ہمسائیوں سے تعلقات غیر سفارتی نوعیت کے ہو جائیں تو دور دراز کے شعبہ جات سے تعلقات عامہ میں خوشگوار تبدیلی آتی ہے ۔ خیر! شعبہ ایجوکیشن کیا ۔۔۔۔۔ہم سے اکثر نالاں تھے ۔ 1970 کے سٹوڈنٹس یونین کے شدید ہنگاموں کی نذر ہوگئے ۔سبب وہی “قومی مزاج” کہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کئے گئے ۔ صدارتی امیدواروں حافظ محمد ادریس اور جہانگیر بدر کے ووٹوں میں ایک سو کا فرق تھا جو بار بار گنتی کے باوجود برقرار رہا ۔ہنگاموں میں توڑ پھوڑ کے الزام میں ٹاپ کے پندرہ بیس طالب علم گرفتار ہوئے ان میں بھی شعبہ صحافت کا سکور سب سے زیادہ تھا

ملک گیر مارشل لاء نافذ تھا لہذا گرفتار طالب علموں کے خلاف ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا ۔متعدد کو قید کی سزا ملی اور انہیں پنجاب کی مختلف جیلوں میں شفٹ کردیا گیا ۔چند ایک بری بھی ہوگئے تھے ۔ہنگامہ خیز یونیورسٹی سیاست ٹھکانے لگی تو نوخیز صحافت بحال ہوگئی ۔ میں اور ہم جماعت ملک صاحب استاذ محترم جناب ڈاکٹر مسکین علی حجازی کی وساطت سے روزنامہ نوائے وقت لاہور میں دو سو روپے ماہانہ پر اپرنٹس سب ایڈیٹر بھرتی ہوگئے ۔شام چھ بجے سے رات دو بجے تک نیوز روم میں “اوئے چھوٹے” کی ذمہ داری اور صبح ایم اے صحافت (سال آخر) کی کلاسز میں حاضری ۔ زندگی کے یہ نئے رنگ ہم نے خود منتخب کئے تھے ۔ ایسے میں ہم جماعت نے جب اپنی “کنول” کو یہ خوشخبری سنائی کہ اخبار میں ملازمت مل گئی ہے ۔فی الحال دو سو روپے ماہانہ تنخواہ ہے تو اس نے راجہ انور کی 2 جون 1973 کی کنول سے اڑھائی برس پہلے خوشخبری کا جواب کچھ یوں دیا ” اس سے زیادہ تنخواہ تو ہمارے گھر میں کک کو ملتی ہے”. یہ جملہ ہم جماعت کے لئے کڑکتی بجلی کا گرنا تھا ۔اس نے چند روز کے توقف کے بعد بوائز ہوسٹل کے قریب ڈھابہ میں بائیں بازو کے سٹڈی سرکل میں شرکت شروع کر دی جہاں شعبہ فلسفہ کے منظور اعجاز اور میرے ایک اور ہم جماعت امتیاز عالم چند طلباء کے جلو میں کارل مارکس ماؤزے تنگ اور لینن کے افکار کا پرچار کرکے ایک نئی پرکشش دنیا کے درشن کراتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد سب کچھ تلپٹ ہوگیا ۔حد تو یہ ہوئی کہ چین اور سویت یونین دونوں اپنے درخشاں نظریاتی ماضی سے “انکاری” ہوگئے ۔ اس تبدیلی کا عوامی نقصان یہ ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے جمہوری طوائف الملوکی کو فروغ دے کر ساری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ دیئے ۔مذہبی عقائد کو جنگ و جدل کے ساتھ نفرت کی دیواریں مذید بلند کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ۔ طبقاتی کشمکش ناپید کردی گئی ۔یہ کشمکش سیاسی انداز میں جاری رہتی تو شاید کبھی معاشی بہتری کے راستے متعین ہو جاتے ۔ رائج الوقت سیاسی انتظامات میں ترقی سے مراد اعلیٰ سطحی کرپشن اور لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں ۔۔
بات کہاں سے کہاں چلی گئی ۔” چھوٹے روپ کے درشن” میں کنول بار بار اپنے اعلیٰ خاندانی پس منظر سے آگاہ کررہی ہے لیکن راجہ صاحب ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں ان کی نگاہوں میں انقلاب کا سرخ پرچم بلند کئے نعرہ زن کنول سراپا امید ہے ۔ 2 جون 1973کو راجہ صاحب کے نام ایک خط میں یہ جملہ سارے قضیہ کا حاصل ہے “”میں ہار گئی ہوں مجھے معاف کردیجئے گا “……راجہ صاحب بدستور ثابت قدم ہیں انہوں نے 19 اکتوبر 1973 کو ایک اور خط میں کنول کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا” تمہارا آخری خط ملنے سے پہلے میں ہر شام تمہیں ایک طویل خط لکھا کرتا تھا ۔میرے پاس ان خطوں کا ایک ڈھیر پڑا ہوا ہے ۔سوچا تھا کبھی ملو گی تو دوں گا ۔میں بھی کتنا سادہ دل تھا پھر ایک دن میں اور پرویز رشید تمہاری تلاش میں مری پہنچے ۔وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ تم ضرور مفلسی میں زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جاؤ گی ۔ہم پورا دن تمہیں ڈھونڈتے پھرے ۔تھک ہار کر مال کے ایک کونے میں جا بیٹھے ۔ بیس پچیس منٹ کی طویل خاموشی کے بعد پرویز رشید نے اچانک مجھ سے پوچھا “آج جمعرات ہے” میں نے جواب دیا “ہاں”. اس نے سر پر ہاتھ مارا ۔”منحوس دن کام کیسے بنتا” باقی چھے دن میرے لئے برے ثابت ہوئے ۔یوں ہم نے پورا ہفتہ نحوست منایا اور بلندیوں سے نیچے اتر آئے “.

کتاب میں شامل راجہ انور کا آخری خط “بیگم صاحبہ کے نام” 17 اپریل 1974 کو لکھا گیا اور یہ آخری باب بھی ہے ۔” آج تمہیں لاہور سے واپس لوٹے پورا ایک سال ہوگیا ۔ آج ہی کے دن تم مجھ سے جدا ہوئی تھیں اور آج ہی کے دن تمہاری شادی ہے کیسا عجیب اتفاق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے ایک بار خود کہا تھا ‘ ان خطوط کو شائع کرا دینا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے تمہاری یہ آخری خواہش بھی پوری کردی”

جناب احمد ندیم قاسمی کے مطابق مصنف راجہ انور کی نوک قلم کا حقیقی ہدف وہ معاشی اور معاشرتی نظام ہے جو محبت کی بے ساختگی اور سچائی کا کٹر دشمن ہے ۔اسی لیے تو کتاب کا انتساب نئی نسل کے نام کیا ہے جو ہمارے دکھوں کا حساب چکائے گی “۔ معروف کالم نگار ادیب اور براڈکاسٹر جاوید چوہدری کے نزدیک راجہ انور کو اللہ تعالیٰ نے وژن تجربہ اور احساس تینوں نعمتوں سے نواز رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ لفظوں سے نیہں جزبات سے لکھتے ہیں اور قلم سے تحریر نہیں کرتے ‘شہنائی بانسری اور ہارمونیم سے تحریر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میرا دعویٰ ہے آپ بس ان کی کوئی تحریر شروع کرلیں یہ آپ کو اس کے بعد دائیں بائیں نہیں دیکھنے دے گی”۔

close