اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی 66ویں برسی 18 جنوری کو منائی جائیگی

لاہور( این این آئی )اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی 66ویں برسی آج( پیر) کو منائی جائے گی۔سعادت حسن منٹو 11مئی 1912 کو غلام حسن منٹو امرتسری کے ہاں موضع سمبرالہ ضلع لدھیانہ بھارت میں پیداہوئے ۔انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا اور پاکستان بننے کے بعد یہاں منتقلی پر بھی افسانہ

نگاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو ، ٹھنڈا گوشت ، دھواں اور بو سمیت درجنوں شاہکار افسانے تخلیق کئے۔ سعادت حسن منٹو 18جنوری 1955 کو 43 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے تھے۔۔۔۔۔اقبال کی سیاسی زندگی پر ایک نظر،یوم اقبال کے حوالے سےڈاکٹر انور سدید کا خصوصی مضمونعلامہ اقبالؔ کی ابتدائی ادبی تربیت خالصتاً ادب کے گہوارے میں ہوئی۔ سیالکوٹ میں طالب علمی کے زمانے میں ہی وہ غزل کہنے لگے تھے۔ انہوں نے میٹرک کا امتحان سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے پاس کیا اور گمان غالب ہے کہ وہ مشاعروں میں شامل ہو کر شاعری کے جوہر کو قبول کرنے لگے تھے۔ ان کی سیالکوٹکی ابتدائی شاعری اب دستیاب نہیں لیکن دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ وہ لاہور منتقل ہوئے تو انکے چند ہم جماعت انہیں کھینچ کر حکیم امین الدین کے مکان پر منعقد ہونیوالے مشاعرے میں لے گئے حکیم احمد شجاع نے اسکا ذکر اپنی کتاب ’’خوں بہا‘‘ میں کیا ہے اور لکھا ہے کہ علامہ اقبالؔ کے اس شعر پر انہیں مرزا ارشد گورگانی نے بہت داد دی…موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کےڈاکٹر صدیق جاوید نے سیالکوٹ کے مشاعروں میں اقبالؔ کی شرکت اور پھر لاہور میں بازار حکیماں اندرون بھاٹی گیٹ کے مشاعروں اور للی لاج

کی ادبی محفلوں (جن کا تذکرہ خواجہ عبدالوحید نے ’’یادِ ایام‘‘ میں کیا) میں باقاعدہ شمولیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’غزل اقبالؔ کی شاعری کا سنگِ بنیاد ہے‘‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے شاعری کی دوسری اہم صنف ’’نظم‘‘ کو اپنے سماجی‘ معاشرتی‘ تہذیبی‘ ملی اور فلسفیانہ تصورات کیلئے زیادہ استعمال کیا اور غزل کے داخلی مزاج کو بھی منقلب کر دیا اور ادب میں انہیں ایک ایسا مقام امتیاز مل گیا ہے کہ ان کی وفات کے بعد بیسویں صدی انکے تصورات فلسفہ علم و فضل اور دانش و حکمت سے لبریز شاعری کے نام منسوب کی گئی ہے اور انکے اسلامی افکار اور دینی بصیرت کو سراہا گیا تو انہیں حکیم الامت اور شاعر مشرق تسلیم کیا گیا۔ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ انکی سیاسی آگہی کو غلامی کے اس احساس نے کروٹ دی تھی جو 1857ء میں سقوطِ دہلی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں میں پروان چڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ اس احساس کو بیدار کرنے میں علی گڑھ تحریک نے خصوصی خدمات انجام دیں تھیں جس کے قافلہ سالار سر سید احمد خان تھے جنہیں ادراک ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں جو اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ اردو ہندی زبان کے مسئلے پر جب ہندوؤں کی تنگ نظری سامنے آئی تو انہوں نے بنارس کے کمشنر شیکسپیئر سے کہہ دیا تھا کہ ’’ہماری زندگی میں نہ سہی لیکن بعد میں یہ دونوں قومیں علیحدہ ہو جائیں گی‘‘۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں