سقوط ڈھاکہ: حال یک دلی سے مرحلہ ناآشنائی تک کا سفر

تحریر: انجینئر حمزہ محبوب

بیسویں صدی کے وسط میں تاج برطانیہ کے راج تلے برصغیر پاک و ہند کی کوک سے تحریک پاکستان کی طویل جدوجہد کے نتیجہ میں دو ممالک پاکستان اور ہندوستان نے جنم لیا۔ تحریک پاکستان کی طویل جدوجہد کے نتیجہ میں پاکستان کا قیام حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ سماجی، سیاسی اور مذہبی رجحانات کی بقا کے تحفظ کی مقصدیت کے تحت مملکت خداداد کا وجود بنگال تا پنجاب، باب الاسلام تا خیبر تک اور کشمیر تا سرحد کے مسلمانوں کی طویل جدوجہد کا ثمر تھا۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستان کو بھارت و دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے شدید قسم کے خطرات و مسائل کا سامنا تھا۔ معاشی ، دفاعی ، سیاسی اور انتظامی بدحالی نے اول دن سے ہی پاکستان کے استحکام پر سوالیہ نشان مرتب کرنا شروع کیے اور بھارت کی جانب سے بے پنا ایسے بیانات جاری اور اقدامات عمل میں لائے گئے جس سے پاکستان کا وجود ہی مٹا دیا جائے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو پہلا دھچکا مشرقی حصہ کی علیحدگی کی صورت میں اس وقت کرنا پڑا جب16 دسمبر 1971 کو ریاست کا کنٹرول مملکت کے دوسرے بازو پر نہ رہا اور ملک دولخت ہو کر ایک نئے ملک بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آ گیا۔

کبھی یہ حال کے دونوں میں یک دلی تھی بہت                                   کبھی یہ مرحلہ کہ جیسے آشنائی نہ رہی
سقوط ڈھاکہ کے بعد بہت سے نامور شعرا نے اپنے رنج و دکھ کا اظہار بذریعہ قلم کیا تاہم نصیر ترابی کی غزل’ وہ ہمسفر تھا’ اس سلسلہ میں منظر کی خوب عکس کشی کرتی ہے ۔ اس غزل میں شامل مصرعہ سے ماخود عنوان تحریر سے تحریک پاکستان سے قیام پاکستان- قیام پاکستان سے لیکر سقوط ڈھاکہ کے سفر میں خطے کے دونوں حصوں میں ایک عہد کی عوامی یکسوئی ، بھائی چارہ، باہم یگانگت کی صورت میں’ یک دلی ‘ اور دوسرے عہد میں تقسیم ، اختلافات، بد اعتمادی اور عدم برداشت کے واقعات اور پس پردہ محرکات کی صورت میں ‘باہم ناآشنائی’ کے جذبات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

قیام پاکستان برصغیرکے مسلمانوں کے لیے بیسویں صدی کی سب سے بڑی کامیابی تھی کہ جس کے حصول کی غرض سے صدی کے آغاز میں ہی مسلمانان ہند نے یک دل، یک زبان ہو کر ڈھاکہ کے مقام پر1906میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا۔ حصول پاکستان کی غرض سے جاری تحریک آزادی میں مسلمانان بنگال و مغربی پاکستان یک دل، یک زبان رہے۔ 23 مارچ 1940 کو مشہور قرارداد لاہور جو کہ بعد ازاں قرارداد پاکستان کہلائی ،مسلمانان ہند کی باہم یکسوئی کی بہترین مثال ہے کہ اس اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی جب کہ یہ قرارداد شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ نہ صرف تحریک پاکستان میں بنگال باسیوں کا کردار نمایاں رہا بلکہ 1937 کے انتخابات میں جہاں مسلمانان کی واحد جماعت وقتی ناکامی سے دوچار ہوئی اور تمام 482 مخصوص مسلم نشستوں میں سےمحض 109میں کامیابی حاصل کر سکی تو وہیں کامیابی کا تناسب بنگال میں سب سے بہتر رہا جہاں مسلمان لیڈرز نے 117 میں سے 39 سیٹیں حاصل کیں۔ گویا پنجاب و دیگر علاقوں کی نسبت کامیابی کا بہتر تناسب مسلمانان بنگال کے رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔ 1937 کے انتخابات ہی نہیں بلکہ 1946 کے انتخابات میں بنگال سے کل 250 نشستوں میں سے 113 سیسٹیں مسلم لیگ کی جھولی میں آ گرنے سے نہ صرف پاکستان کا خواب حقیقت کے نزدیک تر ہوا بلکہ یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ بنگال کے باسی تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ رہے۔

جہاں ایک طرف قیام پاکستان عظیم کامیابی تھی ، وہیں دوسری پاکستان کا دو لخت ہو جانا کسی سانحے سے کم نہ تھا۔ قیام پاکستان سے لیکر تقسیم پاکستان تک کے دورانیہ میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو بتدریج سقوط کی جانب بڑھتے قدموں کو مضبوط تر کرتے گئے ۔ ان قدموں کی چاپ سے حکمران مملکت نہ صرف بے خبر رہے بلکہ ان کی جانب سے ہی ایسے اقدامات عمل میں لائے گئے جو دشمن کے عزائم کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوئے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد قومی زبان کی صورت میں اردو اور بنگالی کا تنازعہ آ کھڑا ہوا اور دو مختلف زبانوں کے مکینوں کی یکسوئی میں پہلی پھوٹ پڑی۔یہی نہیں انتظامی اعتبار سے مغربی پاکستان کے باسیوں کا اقتدار میں رہنا اور مملکت میں آئینی اور انتظامی ڈھانچے کا اولین برسوں میں قیام یا نافذ العمل نہ ہونابد اعتمادی کو فروغ دیتا گیا۔ دونوں حصوں کا باہم فاصلہ 2000 کلومیٹر فاصلہ ہونے اور ان کےمابین بھارت جیسے دشمن کے وجود کی صورت میں بے شمار چیلنجز درپیش رہے۔ مزید برآں ایوب خان کے طویل دور حکومت نے بد اعتمادی، تقسیم اور عدم برداشت کو مزید تقویت بخشی۔ جو بالآخر طاقت کے حقیقی مرکز آمر حکمران یحی خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی اقتدار کی رسہ کشی کی صورت میں اس انتہا کو پہنچی کہ حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔

1947 سے 1958 کے ادوار میں گورنر جنرل غلام محمد نےاقتصادی بدحالی، قحط اور پنجاب کے فسادات کو بہانہ بنا کر بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کردیا۔خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دیتے ہوئے مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا ۔بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیرراعظم کی یوں برطرفی نے بھی احساس امتیازیت کو فروغ دیا۔

بعد ازاں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے قد آور شخصیت کے حامل مولوی فضل الحق کو بھی غدار قرار دیا گیا۔ 1954 کے انتخابات ہوئے تو مولوی فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مل کر جگتو فرنٹ کے تحت یہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے بنگال کی 310 میں سے 301 نشستیں جیت لیں ۔فضل الحق بنگال کے وزیر اعلیٰ بنے۔ مگر یہ شکست پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہ ہوئی اور صرف دو ماہ کے بعد ایک تقریر کو وجہ بناتے ہوئے ان پر غداری کا الزام لگاتے ہوئے منصب سے برطرف کر دیا گیا۔ صرف دس ماہ بعد اگست 1955 میں پاکستان کا وزیر داخلہ اور 1956 میں مشرقی پاکستان کا گورنر بھی بنایا گیا۔تاہم، 1958 کے مارشل لا نے فضل الحق کے سیاسی کریئر میں آخری کیل اسی مارشل لا نے ٹھوکی۔ ان کو برطرف کر کے نظربند کر دیا گیا۔ چار سال بعد 27 اپریل 1962 کو ڈھاکہ میں شیرِ بنگلہ اے کے فضل الحق انتقال کر گئے۔ اپنے دیگر کئی محسنوں کی طرح قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق کو بھی پاکستان نے غدار قرار دیا۔ ان کا قصور محض اتنا تھا کہ بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ پاکستان کی دوسری سرکاری زبان بنانے کے پرجوش حامی تھے اور کرشک سرامک پارٹی یعنی مزدور کسان پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ایک بائیں بازو کے لیڈر مانے جاتے تھے۔

1958 سے لیکر 1969 تک کے طویل ایوبی دور نے دونوں حصوں کے درمیاں اعتماد اور یگانگت کے بجائے مزید تقسیم پیدا کی ۔ یہ دور جہاں پاکستان کی معاشی ترقی کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے ۔ جہاں اس ترقی کے نقوش مغربی پاکستان میں خاطر خواہ انداز میں نظر آئے وہیں مشرقی پاکستان میں اس کے آثار نظر کہیں نہ آئے۔جب مشرقی پاکستان کے نمائندے 1962 کے انتخابات کے نتیجہ میں بیسک ڈیموکریٹس کے طور پر منتخب ہو کر قانون ساز ایوان کا حصہ بنےاور اپنے مسائل کو بھی بھرپور انداز سے پیش کرنے لگے تو حکمران وقت ایوب خان کو عوامی نمائندوں کا یہ انداز نہ بھایا اور اس وقت کے وزیر قانون کو طلب کر کے فرمان جاری فرمایا کہ ‘ یہاں روز جھگڑے بنتے ہیں اور مشرقی پاکستان کے نمائندے مسائل کاسبب بنتےہیں لہذا آپ ان کی نمایاں قیادت سے ملاقات کر کے یہ کہیں کہ یہ روز روز کی بات چیت سے بہتر ہے’ علیحدگی کا راستہ اختیار کرلیں’۔ گویا سیاسی عدم استحکام، بے وقت آئین کے وجود اور طویل آمر دور نے ملک دو لخت کرنے کی بنیادوں کو مضبوط تر کیا۔جب 1968 میں ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک شدت اختیار کر گئی اور ایوب خان نے بادل نخواستہ اقتدار سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو بھی ملکی تقسیم کے خطرہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی مستحکم سیاسی حکومت کے قیام کے بجائے جنرل یحی خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا۔
نئے حاکم کل جنرل یحی خان کےپاس بھی ایک موقع تھا کہ وہ 1956 کے آئین کے تحت انتخابا ت کروا کر سیاسی استحکام کی صورت میں دو حصوں کی باہم رنجشوں کو کم کرتے۔ تاہم ان کا کردار بھی ملک ٹوٹنے کی جانب ہوئے محرکات کے پلڑے میں جا رہا۔ گو کہ نئے نظام کے تحت انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا تاہم یہ انتخابات اور ان کے نتائج نے حالات مزید گھمبیر ترکر دیے۔

1970 کے انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمن کی سربراہی میں 169 سیٹیں جبکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی سرکردگی میں 89 سیٹیں حاصل کی۔ اکثریتی عدد کے ساتھ ایوان میں شیخ مجیب الرحمن کی پوزیشن نمایاں تھی اور انتخابات کے فوری بعد اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس مرحلہ پر جنرل یحی خان کا کراد سب سے اہم تھا۔ یحی خان کی جانب سے یکم فروری 1971 کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب عوامی اکثریت کی رائے کی بنیاد پر اقدار مشرقی پاکستان کے باسیوں کو مل رہا تھا۔ تاہم اس موقع پرذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کی شراکت داری کی خواہش اور شیخ مجیب کے چھ نکات کو وجہ بناتے ہوئے قومی اسمبلی کےکے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ بھٹو نے یہ اعلان بھی کیا کہ ان کی پارٹی کا جو بھی رکن اس اجلاس میں شرکت کرنے جائے گا وہ یکطرفہ ٹکٹ لیکر جائے اور جو اجلاس میں شرکت کے لیے جائے گا’ میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا’ ۔ گویا اسمبلی اجلاس سے بائیکاٹ نے بنگالیوں میں بے چینی پیدا کر دی۔
اسمبلی میں اکثریت چونکہ عوامی لیگ کی تھی لیکن شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات میں شامل مغربی حصہ کی نیم خودمختاری جیسے نکات نے ملک کے دوسرے حصہ میں بھی ان کے عزائم سے متعلق شکوک و شہبات کو جنم لیا ۔مزید برآں اگرتلہ سازش کیس میں بھارتی ایجنسیز سے ساز باز کے واقعات نے بھی شیخ مجیب الرحمن کے کردار کومزید مشکو کتر کیا۔تاہم، ذولفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی باہم رسہ کشی میں سب سے اہم کردار طاقت کے حقیقی محور یحیی خان کا تھا۔ ذولفقار اعلی بھٹو کی جانب سے یحیی خان پر اجلاس ملتوی کرنے کا دباو تھا ۔ جنرل یحیی خان اپنی نجی مشغولیات، رنگ رنگیلیوں اور طاقت کی ہوس میں سرمست ملکی سلامتی کے تحفظ سےکوسوں دور سیاسی دباو کا شکار رہے اورانہی کی ایما پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ اجلاس کا ملتوی ہونا تھا کہ حالات خراب ہونا شروع ہو گئےاور مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک چل پڑی۔بھارت جو کہ پہلے سے موقع کی تلاش میں تھا- نے مکتی باہنی کے مسلح گروہوں کی صورت میں پاک فوج اور پاکستان کے حامیوں پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ یحیی خان نے اس مو قع پر بھی اقتدار منتقلی اور اسمبلی کا اجلاس بلا کر حالات قابو کرنے کے بجائے بغاوت کچلنے کے لیے 25 مارچ 1971 کو فوجی آپریشن کا آغاذ کر دیا۔اس فوجی ایکشن کی حمایت سیاسی رہنما ذولفقار علی بھٹو نے بھی کی۔

 

فوجی آپریشن کے نتیجہ میں مکتی باہنی کو تو نو ما ہ میں کچل دیا گیا تاہم بنگالیوں میں مغربی پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے نفرت بڑھتی چلی گئی۔ بھارت نے ایک قدم آگے بڑھ کر مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے پاک فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ مرکز سے ہزار میل دور موجود فوج، سپلائی لائن کا عدم وجود اور خراب حالات نے پاک فوج کے لیے مسائل میں اضافہ کیا۔ پاک فوج نے شہادتیں نوش کی، مقابلہ کیا تاہم تمام تر مسائل کی موجودگی میں 16 دسمبر کو جنرل نیازی نے سرنڈر کردیا اور یوں پاک فوج کو شکست ہوئی۔

گویا 1947 سے 1958 کے دور میں اقتدار کے حصول کی غرض سے پے در پے تبدیلیوں، آئین سازی نہ ہونے، اردو بنگالی تنازعہ اور غداری کے الزامات نے تقسیم پاکستان کی آگ کو ایندھن فراہم کیا۔ وہیں 1958 سے 1969 تک کے ایوبی دور نے معاشی امتیازیت ، علیحدگی کی پیشکش اور توجہ نے ایندھن کو تیل مہیا کیا۔ مزید برآں 1970 کے انتخابات کے بعد یحیی خان کی جانب سے اصول پر مبنی فیصلے نہ کرنے اور سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ‘ادھر ہم، ادھر تم ‘جیسے نعروں بمعہ سیاسی ضد نے بنگال کے باسیوں میں نفرت کے وہ بھیج بوئے کہ جس نے دشمن بھارت کو یہ موقع فراہم کیا کہ 25 مارچ 1971 سے لیکر 16 دسمبر 1971 تک مکتی باہنی کے قیام ، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی مقبولیت اور عوامی جذبات کو ابھار دیتے ہوئے ایسے حالات پیدا کرے جس سے پاکستان کا دولخت ہو جانا ناگزیر ہو جائے۔ سیاستانوں کی سیاسی چپقلش ، اقتدار کے اصل محور ، طویل آمرانہ ادوار میں کیے گئے فیصلوں اور دیگر گوں ناں گوں واقعات نے دشمن کی موجودگی میں پاکستان کو دولخت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ گویا تحریک پاکستان کی جدوجہد میں’ یک دل، یک زبان’ مسلمان بھائیوں میں نفرت کے بیجوں نے وہ فصل بوئی کہ جس کے نتیجہ میں باہم ‘نفرت اور ناآشنائی’ نے جنم لیا۔ اوربوجہ خود غرضی نہ کہ بدقسمتی کی سے سے پاکستان دولخت ہو گیا!

کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن                      صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی

close