پاکستان ریلویے، جولائی 2020 سے اب تک ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین اور دورانِ سروس وفات پاجانے والوں کی بیوائیں، یتیم بچے تا حال واجبات سے محروم، تحریر محمد انور بھٹی

پاکستان ریلوے وہ ادارہ ہے جوکہ دفاعی اور تان ریلوے معاشی طور پر ملک عزیز کے لیئے ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔
پاکستان ریلوے ملک میں نقل و حمل کا سب سے بڑا ذریعہ ھے جو کہ آمد ورفت کی صورت میں پاکستانی عوام کی 70 فیصد سے زیادہ ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ آرام دہ ،پرسکون اور محفوظ ترین سفر مہیا کرتا ہے ۔اگر چہ موجودہ جدید دور میں اِسے نقل و حمل کا برق رفتار ذریعہ تو تصور نہیں کیا جاتا ہے مگر آج اس کمر توڑ مہنگائی اور حادثاتی دور میں بھی یہ اپنی جگہ محفوظ اور کم خرچ سفر کی ضمانت ضرور ہے ۔

اس میں پسنجرز اور سامان کو لے جانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ہاتھی ، گھوڑے، اونٹ خچر اور ۔ کتےسے لیکر گائیں ، بھینس ، بھیڑ بکریوں اور اِن کو خوراک کے طور پر دیئے جانے والے چارہ تک لے جانے کی سہولیات موجود ہیں ۔ اسی طرح بائیسائیکل ، موٹر سائیکل ، موٹر کار اور ٹرک سے لے کر ٹینکوں اور لمبی رینج کی فائرنگ کرنے والی ہیوی آرٹلری تک کی مشینری اور کنٹینرز کے ساتھ ساتھ اِن میں اِستعمال ہونے والے ایندھن کے لیے ایک خاص قسم کا رولنگ اسٹاک دستیاب ہے۔ ٹریک پر ہر چلتی ہوئی گاڑی ایک اشتہارہے۔ یہ سلوگن ہے حفاظت، رفتار اور وقت کی پابندی کا ۔اس میں ایک بہت ہی قابل اعتماد اور کامل اکاؤنٹنگ سسٹم ہے۔ حادثات کی روک تھام کی نگرانی کا ایک منظم اور مضبوط حفاظتی نظام موجودہے۔ ان تمام معیاری ترجیحات کے ساتھ، یہ حکمت عملی کے لحاظ سےملکی سلامتی اور ملکی دفاع کے لیئے دوسر ی سب سے بڑی دفاعی لائن کی اہمیت کاحامل ادارہ ہے۔
جسے ہم نے مانا تو ہے مگر کبھی اسے دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔
آج پاکستان ریلوے اور اس ادارے سے منسلک محنت کش جس بد حالی اور زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یوں تو یہ کہانی کئی دیہائیوں پر محیط ہے ۔ مگر بد قسمتی سے گزشتہ ساڑھے تین/چار سال پر محیط تحریک انصاف کی حکومت نے اس ادارے اور اسکے محنت کشوں کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھا اس رویے نے ادارے کو مکمل تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ ناقص منصوبہ بندی سیاسی بندر بانٹ اوراس کے وسائل کےبےجا، بے دریغ اور غلط استعمال نے جہاں ادارے کونا قابل تلافی نقصان پہنچایاہےوہیں اس کے محنت کشوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا گیاہے جس کی واضع مثال یہ ہے کہ ایک طرف تو اربوں روپے کےخسارہ کا رونا روکر اور بہانہ بناکرچھوٹے ملازمین کیلئے تنخواہؤں اور ریٹائرڈ ملازمین، بیواؤں اوریتیم بچوں کی پنشن کا حصول مشکل بنا دیا گیا تھا تو دوسری جانب محکمہ ریلوےکی جانب سےدفاتر کی تہذین وآرائش کی مد میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا تھا تو دوسری جانب درجنوں من پسند افسران اور دیگرملازمین کو لاکھوں روپے کے کیش انعامات سے نوازجارہا تھا ۔اِن تمام حالات اورواقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئےیہ یقینی طور پرکہا جاسکتاتھا کہ پاکستان ریلوے ابھی بھی اس سطح تک زوال پذیر نہیں ہوا تھا کہ تنخواہوں اورپنشن کی ادائیگی بھی محکمہ کےلیےمسئلہ بن جائے۔
ریل کے محنت کش اور مزدور کے حالات زندگی انتہائی نا گفتہ بہ ہوچکے تھے۔ محنت کشوں کے ساتھ انتہائی ناروا برتاؤکیا جاتارہا۔ محنت کشوں کو ایسے القاب سے نوازا گیا جس کی داستان کو قلم لکھنے سے قاصرہے ۔
پاکستان ریلوے کے محنت کش دوران سروس اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور رہ کر یہ اپنی ڈیوٹیاں،ذمہ داریاں جس محنت ،لگن اورایمان داری کے ساتھ نبھاتے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی ۔ڈیوٹی کے دوران بوڑھے ماں باپ ، بیوی اور بچوں سے دوریاں ماں باپ کی بیماری بچوں کی تعلیم یا اُن کے کوئی بھی دکھ وتکلیف ان کی اپنی چھوٹی موٹی تکلیف یاپریشانی میں یہ دوران ڈیوٹی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کبھی بھی آڑے نہیں آنے دیتے بلکہ یہ اپنی ڈیوٹی نہایت ہی ذمہ داری اور خندہ پیشانی کے ساتھ سر انجام دینے کو اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ آندھی آئے یا طوفان ۔سرد ٹھٹھرتی ہوئی راتیں ہوں یا پھر جھُلساتے ہوئے سورج کی گرمی ہو یہ ان تمام موسمی شدت اور اثرات سے بے نیاز ہوکر بس ریل کے پہیے کو رواں دواں رکھنے ہی میں مگن رہتے ہیں ۔ ریل کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کی خاطر اس ادارے کےمحنت کشوں نے اپنے ہاتھ اور پاؤں کٹوا ڈالے اور کتنے ہی محنت کشوں نے اپنے جانوں کے نزرانے پیش کئے۔ مگر کبھی اس کے پہیے کو رکنے نا دیا۔ ادارے کی فلاح ادارے کی بقاء پر کبھی حرف نہ آنے دیا ۔ اپنی اور اپنے اہل واعیال کی چھوٹی سے چھوٹی خواہشات کو اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کی خاطر ادارے پر قربان کرڈالا۔ اپنی جوانی پہاڑوں صحراؤں اور ریگستانوں میں گزار دی ۔ اب تو بالوں میں چاندی چمکنے لگی ہے ۔ زندگی بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگی ۔کچھ کے ماں باپ اس دار فانی سے رحلت فرما چکے ہیں جو زندہ ہیں وہ اب ضعیف العمری کی حالت میں ہیں ۔ اولادیں جواں ہوچکی ہیں ۔انسانی فطرت بھی ہے اور فطری تقاضہ بھی ہے کہ جب ذمہ داریاں بڑھتی ہیں تو عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ بھی بدلتی ہے۔

خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے

جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے

نئی اُمیدیں اور تمناؤں کے خواب سجاکر اپنے رشتوں کی طرف پلٹنے کاوقت آن پہنچتاہے ۔دماغ میں نئے ولولے نئی خواہشیں جنم لیتی ہیں ۔ کہ اب اپنے بچوں کا سر ڈھانپنے کے لئے اپنی چھت ہوگی ۔ جہاں وہ اپنے اہل واعیال کے ساتھ زندگی کے آخری لمحات پرسکون گزارے گا، اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں پر مہندی سجاکر اُن کو باعزت طریقے سے ڈولی میں بیٹھا کر رخصتی ہوگی۔ بیٹوں کے ماتھے پر سہرے سجائے جائیں گے ۔ ان کے بہتر مستقبل کے لیئے ان کو اعلٰی تعلیم دلوائی جائے گی ۔ یہ وہ خواب ہیں جنہیں ایک محنت کش اپنے ذہنوں میں سجاکر اپنی زندگی کے قیمتی 35 سے 40 سال اپنے ادارے پر قربان کر دیتا ہے ۔
جیسا کہ میرے وطن عزیز میں وزیروں ،مشیروں ،افسر شاہی، ججز، وکلاء اور مقتدر اداروں کو استحقاق حاصل ہے۔ کیا مجال ہے کہ ان کے استحقاق میں کوئی بال برابر بھی فرق آجائے۔ آندھی آئے یا طوفان اِن کے استحقاق میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ۔ مگر یہاں پر استحقاق نام کی کوئی چیز اس ملک کے محنت کش اور مزدور کو حاصل نہیں ہے جس کا زندہ اور جاگتا ثبوت یہ ہےکہ پاکستان ریلوے سے یکم جولائی 2020 سے لیکر اب تک ریٹائرڈ ہونے والےملازمین اوردورانِ سروس وفات پاجانے والے ملازمین کی بیوائیں یتیم بچوں کو ان کو ادا کئے جانے والے تمام واجبات سے محروم رکھا گیا ہے جو کہ سراسر ناانصافی اور ظلم کے مترادف ہے
نہایت ہی دکھ اور افسوس دہ امر ہے کہ وہ ملازمین جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال نہایت ایمانداری، محنت اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں محکمہ ریلوے اور وطن عزیز کی خدمت کے نزر کیے۔اُن کی ان تمام خدمات کو یکسر فراموش کرکے اِن کو انکےجائزحقوق سے ابھی تک محروم رکھا گیاہے۔
ان کے واجبات کی ادائیگی نہ ہونے کے سبب یہ ریٹائرڈ ملازمین اپنی زندگی انتہائی کسمپرسی کے حالات میں گزارنے پر مجبور ہیں عمر کے اس حصے میں اب یہ کوئی دوسری محنت مشقت کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔
کمر توڑ بے لگام مہنگائی، قلیل آمدنی اوراپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محرومی کے سبب یہ مسلسل ذہنی انتشار اور دباؤ کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا شکار ہوچکےہیں ۔ مالی مشکلات کے سبب اپنا مناسب علاج نہ کرواسکنے کی وجہ سے اکثریت چارپائی پر ہیں اور کتنے ہی بیماریوں کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیائے فانی سے رحلت فرما چکے ہیں ۔وفات پاجانے والے ملازمین کی بیوائیں اور یتیم بچے بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔بچے اپنی تعلیم سے محروم اوراپنی ادھوری تعلیم کو مکمل کرنے سے قاصر ہیں ۔ جوان بچیاں گھروں پر بیٹھی ہیں جن کے سروں میں چاندی اتر چکی ہے ۔ گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وفات پاجانے والے کے گھر سے کفن دفن کے پیسے بھی ملنا محال ہوچکے ہیں ۔
انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ زندگی اجیرن بن چکی ہےاورمرنا محال ہوچکا ہے ۔ اس ضمن میں خادم پاکستان وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور وفاقی وزیر ریلوے سے التماس ہے کہ خدارا اس طرف توجہ فرمائیے گا۔ ان ضعیف العمر پینشنرز بیواؤں اور ان کے یتیم بچوں کی داد رسی فرمائیے گا۔ ان کو ان کے جائز حقوق دلوائیے گا ۔ ان کو بھی معاشرے میں جینے کا حق دیجئے گا ۔
اُمید واثق ہے کہ درج بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے خادم پاکستان میاں محمدشہبازشریف وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور وفاقی وزیر ریلوے ان تمام انسانیت سوز مسائل کو دیکھتے ہوئے ریلوے سے ریٹائرڈ ہونے والے اور دورانِ سروس وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی ان پریشانیوں اور مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے بقایا واجبات کی ادائیگی کے لیے فوری احکامات صادر فرمائیں گے ۔ جو کہ گزشتہ تین سال سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوئے بیٹھے ہیں۔ ضعیف العمر پینشنرز ، بیوائیں اوریتیم بچے آپ کی درازی عمر کے لیئے ہمیشہ دعا گو رہینگے۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں