”ہم ایک اسکریو ٹرن کی دوری پرہیں”،صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کا یہ جملہ پاکستان کے جوہری بم کے بارے میں دنیا کو معلومات مہیا کرنے میں اس وقت کارگر ثابت ہوا کہ جب سن 1988 میں بھارت کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار تھے،اور بھارت اٹامک بم کے تجربہ کے بعد خطہ میں مسلسل اپنا دباو بنائے ہوئے تھا۔ اس صورت میں پاکستان کو بھارت کی جانب سے حملے کا خدشہ تھا۔ گوکہ پاکستان نے اس وقت تک کافی حد تک اٹامک پروگرام پر کافی حد تک کام مکمل کر لیا تھا مگر یہ سوال کہ آیا پاکستان اس قابل ہو چکا ہے کہ بھارت کے ممکنہ حملہ کا دفاع کر سکے،جواب کامنتظر تھا۔
سوویت یونین کی افغان چڑھائی اور پاکستان امریکہ تعلق داری کے قیام کے بعدپاکستان نے وقت کے نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اٹامک پروگرام پر کام جاری رکھا مگر اس برس یعنی 1988 میں سوویت یونین کے افغانستان میں پٹ جانے کے بعد صورت حال یکسر بدل چکی تھی۔ پاک امریکہ تعلق بھی مفاد کی کروٹ لے چکا تھا۔ یوں پاکستان پر اپنے اٹامک پروگرام جاری رکھنے اور تجربات سے روکنے کے لیے پابندیوں اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھی۔ اس مشکل صورت حال میں کہ جب ایک طرف اذلی دشمن اپنی ایٹمی طاقت میں سرمست اپنا دباو بڑھانے اور حملہ کے در پر تھا تو دوسری طرف بغرض دفاع و سالمیت پاکستان کا اٹامک پروگرام پر کام یا تجربہ کرنا نا گزیر تھا۔ گویا اس نازک صورت حال میں صدر پاکستان کی جانب سے اس جملہ نے محتاط انداز میں معنی حیز ترجمانی کر کے دشمن و دنیا کو مفہوم سے آگاہ کردیا۔ اور یوں دنیا کو باور کرادیاگیا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے بہت قریب ہے یا بنا چکا ہے اور یہ سوال بھی قائم رہا کہ اٹامک پروگرام مکمل ہو پائے گا بھی یا نہیں۔
پاکستان کا جوہری پروگرام سائنسدوں کی انتھک محنت، ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی کاوشاور بدلتے مقتدر چہروں کی یکساں پالیسی کا نتیجہ ہے۔28 مئی 1998 کو چاغی،بلوچستان کے مقام پر پاکستان نے یکے بعد دیگرے 6 اٹامک دھماکے کر کے دنیا کو بآور کرا دیا کہ پاکستان اپنے دفاع اوردشمن کی سازشوں و حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ یوں یہ دن یوم تکبیر کہلایا۔ گویا پاکستان کے کامیاب جوہری تجربات نے دشمن کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور بھارت کو دھونس دھمکیوں سے مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام 1955 میں عمل میں آیا ۔ جبکہ پہلے جوہری پلانٹ کاسنگ بنیاد 1965میں رکھا گیا۔ اسی پاکستان کے وزیرخارجہ ذولفقار علی بھٹو کی ملاقات ویانہ میں منیر احمدسے ہوئی جو کہ اس وقت اہم ذمہ داریکے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔اس ملاقات نے منیر احمد نے وزیر خارجہ کو بھارت کے جوہری پروگرام کے بارے میں آگاہ کیا کہ بھارت بہت جلد جوہری طاقت کی صلاحیت حاصل کرنے کے در پر ہے۔اس دورے سے واپسی پر ذولفقار علی بھٹو نے اس وقت کے صدر ایوب خان کو جوہری پروگرام پر کام شروع کرنے کامشورہ دیا۔مگر معاشی حالت کی وجہ سے ایوب خان نے اس معاملہ پر ہر خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ 1972 میں ذولفقار علی بھٹو نے بطور وزیر اعظم جوہری منصوبہ پر کام کاہنگامی بنیادیوں پر آغاذ کیااور منیر احمد کو ہی اٹامک کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ منصوبہ کی ڈیڈلائن چار سال رکھی گئی مگر اس قلیل وقت میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔
اس دوران کچھ تکنیکی مسائل درپیش رہے جن کے تدارک کے لیے 1974 میں سویزر لینڈ میں مقیم ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی خدمات خاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اے۔کیو خان وہاں کی پر آسائش زندگی اور کامیاب کیرئیر کو قربان کرتے ہوئے جذبہ حب الوطنی کے تحت پاکستان آئے۔ قبل ازیں نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی اس ٹیم کاحصہ بن چکے تھے۔ 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان کے لیے اپنے دفاع کومضبوط کرنا لازم تھا۔ اور بھارت کے جوہری منصوبہ نے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانا لازم و ملزوم کر دیا تھا۔ گویا اس امر کا احساس مزید اس وقت ہوا کہ جب بھارت نے 1974 میں بوکھران کے علاقہ میں جوہری تجربارت کیے۔ گو کہ بھارت کی جانب سے ان تجربات کو پر امن مقاصد کے طور پرظاہر کیا گیا اور ان تجربات کو ‘سمائلنگ بدھا’ یعنی ا من سے تشبیہ دیا گیا۔ اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے یہ موقف اپایا کہ یہ پروگرام مخص توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ مگر اس کے جواب میں ذوالفقار علی بھٹو نے سخت موقف اپناتے ہوئے کہاکہ’ پاکستان ہر گز کسی دباو میں نہیں آئے گا’، ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے’۔ اس صورتحال میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی صورت میں ایک مضبوط اسلامی بلاک بھی تشکیل پا چکا تھا۔ اس دوران پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام پر کام جاری رکھا۔
امریکہ کی جانب سے دھمکیاں بھی دی جانے لگی اور سیکشن 669 کے تحت پاکستان کی مالی مدد بھی بند کر دی گئی۔ حالانکہ قبل ازیں پاکستان بھارت کو جوہری پروگرام سے روکنے اور خطہ کو نیوکلئیرفری بنانے کی پیشکش کر چکا تھا۔ امریکی سفیر کی جانب سے عبرت کا نشان اور پتھر کے ذمانے میں دھکیلنے کی باتیں وزیر اعظم پاکستان تک پہنچائیں گئیں۔
لیکن سوویت یونین کی افغانستان چڑھائی نے امریکی موقف یکسر بدل دیا۔ اور پاسکتان سے تعلق وقت کی ضرورت ثابت ہوا۔ پاکستان نے بھی وقت کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے اپنے پروگرام کو تیز تر کر دیا ۔اس دورانیہ میں امریکی کی جانب سے پاکستان کو بھرپور مالی مدد فرام کی گئی کیونکہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان کا کردارر نمایاں تھا۔
جوہری توانائی کے لیے یورینیم کے ذخائر ڈیرہ غازی خان کے مقام پر ملے جو کہ پروگرام کی کامیابی میں اہم پیش رفت ثابت ہوئے۔ پاکستانی سائنسدان اپنے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ بھارتی جوہری طاقت کا تعین بھی کر چکے تھے۔ وہ کچھ اسطرح کہ بھارت نے 1974 میں جو تجربات کیے ،وہ قدرے کم گہرائی پر کیے گئے تھے۔ لہذا جب بھی کوئی جہاز اس راستے پاکستان آتا تو پاکستانی سائنسدان ٹشو پیپر سے جہاز کی تہہ پر موجود ذرات جمع کر لیتے کیونکہ بھارت کے تجربات کے بعد اس میں سے استعمال شدہ مواد ہو امیں موجود تھے۔ روس سے جنگ کے دوران پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ طیارے اور ائر کرافٹ حاصل کرنے کے معاہدے کیے۔ 1983 میں 24 کولڈ ٹیسٹ کیے گئے۔ جبکہ 1987 میں یورینیم انرچمنٹ پر کام کیا گیا۔ اسی طرح 1988 میں خوشاب کے مقام پر نیوکلیر پلانٹ بنایا گیا۔
لیکن 1987-1988میں سوویت یونین کی شکست کے فورا بعد صورت حال یکسر بدل گئی ۔ بھارت نے حملوں کی تیاری شروع کر دی اور امریکہ نے ایک دفعہ پھر آنکھیں پھیرتے ہوئے پابندیوں اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ضیا دور کے معاہدہ 3میں شامل ائیر کرافٹ اور 34 ایف- 16 تیاروں کی فراہمی سے انکار کر دیا گیا ۔ امریکی نمائندہ رابرٹ سیٹلی نے پاکستان کو واضع پیغام پہنچایا کہ پاکستان فوری طور پراپنے جوہری پروگرام کو روکے۔الغرض یہ ہدایات بھی جاری کی گئیں ‘فریز-کیپ-رول بیک’! یعنی پاکستان کے اٹامک پروگرام اور تجربات کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ انہی برسوں میں بھارت میں بھارتیہ جنتہ پارٹی متعصبانہ موقف کے ساتھ اقتدارمیں آ چکی تھی۔ جس کے انتخابی منشو رنے آنے والے برسوں میں حالات کی سنگینی کو واضع کر دیا تھا۔ اس صورتحال میں مشاہد حسین سید کی کاوش سے ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور نامور بھارتی صحافی کلدیپ نائر کی ملاقات کی گئی۔ اس ملاقات کا مقصد بھارت کو غیر محسوس طریقہ سے کسی بھی حملہ یا غیر ذمہ دارانہ حرکت سے باز رکھنا تھا۔ اور یہ بھی باورکراناتھا کہ پاکستان جوہرئی توانائی حاصل کرنے کے بہت قریب ہے۔ گویا پابندیوں کے باوجود بھارت کے ممکنہ حملہ کو ایک کامیاب و محتاط طریقہ سے رکوا دیا گیا۔
مئی 1998 میں بھارت نے چار ایٹمی دھماکے کر دیے۔ پاکستان نے بھی اس کے جواب میں رد عمل ظاہر کرنا تھا۔ پاکستان کو تجربہ سے روکنے کے لیے کاوشیں شروع ہوئیں۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کو بھرپور مالی مد د کی پیش کش کی۔ وزیر اعظم آفس کی فون کی گھنٹی کبھی کسی دھمکی کی منتظر رہی تو کبھی مالی امداد کی تو کبھی تابناک مستقبل کی وعید کی۔ اس نازک صورت حال میں خارجی دباو کے ساتھ اندرونی دباؤ بھی مقتدر حلقوں کے لیے امتحان تھا۔ عوام کی جانب سے جگہ جگہ مظاہروں نے وزیر اعظم نواز شریف کو کسی بھی فیصلہ کی جانب بڑھنے پر مجبور کیا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے جوہری تجربہ سے متعلق معلومات لیں ۔جس میں پاکستانی سائنسدانوں نے واضع کیا کہ تین دن کے اندر پاکستان جوہری تجربہ کر سکتا ہے۔ یوں جوہری تجربہ کرنے کی تیاریوں کا حکم جاری کر دیا گیا۔ اس دوران بیرون دنیا کو بھی کوئی واضع جواب نہ دیا گیا۔ غیر آبادچاغی، بلوچستان کے مقام پر پہاڑوں میں سرنگوں کو تجربات کے لیے تیار کیا گیاںتا کہ تجربات کے نتیجہ میں تابکاری سے کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پیشہ ورانہ صلاحیتیوں و کلیدی کردار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کردار بھی نہایت اہم رہا جنہوں نے اپنی خدادا صلاحیتوٰں و جذبہ حب الوطنی کے ساتھ جوہری تجربہ میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نےبعد ازاں ‘نیس کوم’ نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن کا قیام عمل میں لایا۔ یاد رہے نیسکوم نے ہی پاکستان ڈیفینس اور میزائل پروگرام کے خدوخال تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مزید برآں فاسٹ نیوٹران فزیکل گروپ کے پہلے ڈائریکٹر کے طور پر بھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمات پیش پیش رہیں۔ یوں جذبہ حب الوطنی سے سرشار انجینئرز کی ٹیم، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں چاغی ون اور چاغی ٹو کی صورت میں پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہونے کو تھا۔
بالآخر 28 مئی ، 1998بروزجمعرات کو بیرونی دنیا کے دباو کو بالاطاق رکھتے ہوئے، اسلامی برادر ملکوں کے بھرپور ساتھ سے ، اپنی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے، عوامی امنگوں کا مان رکھتے ہوئے، بھارتی غرور کو خاک میں ملانےکے لیے پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دوپہر 3:16 منٹ پر یکے بعد دیگرے تین ایٹمی دھماکے کیے جن سے چاغی کے پہاڑ گونج اٹھے۔ یہ تجربابت چاغی 1 کہلائے۔ 30 مئی کو دو اور تجربے کیے گئے جو کہ چاغی 2 کہلایا۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یوں بھارت کے چاردھماکوں کے جواب میں پاکستان نے پانچ دھماکے کر کے ، بھارتی غرور کو خاک میں ملا دیا۔ عوام گھروں سے نکل آئی اور ہرطرف جشن کا سماں سج گیا۔ امریکہ و دیگر طاقتوں نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں مگر دوست اسلامی ملکوں اور خاص بالخاص سعودی عرب کی مالی مدد سے پاکستان کسی معاشی مشکل سے دوچار نہ ہوا۔ یوں جذبہ حب الوطنی سے پرھوی کے جانشینوں کو غوری کے جانثاروں نے منہ توڑ جواب دے کر کفر کا تکبر، تکبیر حق سے مٹا دیا۔
پاکستان پائندہ باد!
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں