ایل او سی پر مسلسل بھارتی کشیدگی نے کشمیر میں سیاحت کا مستقبل دھندلا دیا مظفر آباد سے صحافی راجہ شعیب محمود کی تحریر

جنگوں نے صرف ہلاکتوں کے انبار ہی نہیں لگائے بلکہ کرہء ارض کے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر وجود انسانی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ آج ہمارے سمندر، دریا، جنگلات، پہاڑ، میدان غرض یہ کہ قدرت کا وہ کون سا انمول تحفہ نہیں ہے، جو جنگی تباہ کاریوں سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جنگوں نے انسانی سماج کو ہمیشہ ہی تباہی اور بربادی کے تحفہ دئے۔اگر یہ کہا جائے کہ جنگ کا پہلا نشانہ معیشت کی تباہی ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بندوقوں کے گولے پرواز کے لئے بلند ہوتے ہیں،

تو وہ صرف خوف و دہشت کے بازار ہی گرم نہیں کرتے بلکہ ان کی آغوش میں چھپا ہوا بارود زمین کی چھاتی کو بنجر کر دینے اور انسانوں کی ہستی بستی زندگیوں کو تباہی کی طرف دھکیلنے کا ایک بڑا سبب بنتا ہے۔ بارود کی آگ کھیتوں کی ہریالی کو ہی نگلتی بلکہ اس ہریالی سے جڑی ہر ایک چیز چاہے معیشت، اقتصادیت ،سیاحت اور زراعت سمیت ہر ایک چیز کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔

اس وقت دنیا میں ایک ایسا خطہ بھی موجود ہے جہاں 75 سال سے مسلسل جنگ چل رہی ہے۔قیام پاکستان 1947 کے فوراً بعد اس وقت کی آزاد اور مکمل خودمختار ریاست جموں و کشمیر بھی ریڈ کلف ایوارڈ کی نا انصافیوں کی وجہ سے جنگ کی دلدل نا چاہتے ہوئے بھی دھنس کر رہ گئی۔ریاست کے ایک حصہ پر بھارت نے فوجی قبضہ کر لیا جبکہ ایک حصہ کو کشمیریوں نے قبائلیوں کے ساتھ ملکر ڈوگرا کی فوج سے آزاد کروا لیااور مملکت پاکستان کے زیر سایہ ایک آزاد حکومت قائم کر لی۔اس وقت سے لیکر اسوقت جو لکیر وادی کے دونوں اطراف کو الگ کرتی ہے اس سیز فائر لائن یا لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے۔اس لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف دو ایٹمی ممالک کی فوجیں مورچہ زن ہیں۔

ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں ہر سو گولہ بارود کی بدبو اس ہر طرف کشمیریوں کا مقدس لہو اور دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر آباد آزاد کشمیر کے شہریوں کی زندگیاں اس گولہ بارود کی گن گرج سے جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ اس خونی لکیر کے دونوں طرف کشمیری ہی بستے ہیں۔نیلم سیکٹر سے درہ شیر خان تک دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں کے دونوں طرف خونی رشتہ داریاں موجود ہیں۔

وادی نیلم کی معیشت سیاحت سے جڑی ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارت اور پاکستان کے مابین ہونے والی کشیدگی سے دونوں اطراف بسنے والے کشمیری براہ راست متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کی معیشت تباہ ہوئی اور انکی زندگیاں اجیرن ہو کر رہ گئیں جس سے ، لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی فائرنگ سے نیلم میں سیاحت کی انڈسٹری زوال پذیر ہے۔دونوں ممالک کی افواج کے درمیان فاںٔرنگ کے تبادلے سے لائن آف کنٹرول کے رہائشیوں کو جانی ،مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایل او سی کے باسیوں کے نہ گھر محفوظ ہیں نہ باہر، ان جانور پہاڑوں پر چرنے جاتے ہیں تو کسی بے رحم گولہ کی آغوش میں آجاتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر واقع آزاد کشمیر کا ضلع نیلم جو دریائے نیلم کے کنارے بیشتر حصہ کنٹرول لائن پر مشتمل ہے اور ہر بھارتی فوج کی گولیوں کے نشانے پر رہتا ہے۔ وادی نیلم ایک قدرتی طور پر جنت نظیر وادی ہے جس کے برف پوش پہاڑ اور پلند و بالا چوٹیاں اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں۔ وادی نیلم میں دریائے نیلم کے دوسری جانب ہندوستان کی فوج مورچہ زن ہے جبکہ وادی نیلم کے بلند و بالا پہاڑ اسے سلسلہ ہمالیہ اور گلگت سے ملاتے ہیں۔وادی نیلم تاریخی اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں پر قدیم تہذیب کے آثار موجود ہیں۔

قدیم ترین شاردہ یونیورسٹی اور اس کے ساتھ آرکیالوجیکل اثاثے دنیا بھر سے سیاحوں کو کھینچ لاتے ہیں۔ وادی نیلم شدید ترین برفباری والا علاقہ ہونے کی وجہ سے بھی سیاحوں کے لیے پر کشش ہے لیکن جب بھی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہوتی ہے وادی نیلم کی سیاحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ ایک سیزن میں اگر فائرنگ ہو گئی تو پھر وہاں اس سیزن میں کوئی سیاح رخ میں کریگا، اسی وجہ سے وادی نیلم کی جنت نظیر وادی میں سیاح اب اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔

اگر پچھلے چند سالوں کے اعداد شمار اٹھائے جائیں تو 2017ں،2018 میں 2317 دفعہ دونوں اطراف سے لائن آف کنٹرول کی وائلیشن کی گئی ان میں کچھ سیاحوں کی گاڑیوں کو بھی ہندوستان کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ضلع نیلم میں سال 2019 میں ریکارڈ تیرہ لاکھ سیاحوں نے اس جنت نظیر وادی کا رخ کیا اور اس دوران نیلم میں رات کے وقت میں میلہ کا سماں ہوتا تھا اور ہر طرف سیاحوں کی دھوم تھی۔پھر نیلم کی اس رونق کو نظر لگ گئی اور ہندوستانی فورسز نے نیلم کے سویلینز پر اپنا فائر کھول دیا جس سے متعدد سویلین شہید ہو گئے اور ایک دم سے نیلم کی ہستی بستی جنت کسی ویرانے میں تبدیل ہو گئی۔وادی نیلم میں اکثر اوقات بھارتی افواج کی جانب سے سیاحوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، جس سے سیاح اس خوبصورت وادی کا رخ کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ گولی بارود کے ماحول میں ایک طرف سیاح وادی نیلم کا رخ کرنے سے ڈرتے ہیں جبکہ دوسری جانب نیلم کے عوام جن کا بیشتر ذریعہ آمدنی سیاحت سے منسلک ہے وہ بھی پریشان حال نظر آتے ہیں۔

وادی نیلم سے تعلق رکھنے والے ایک ٹور آپریٹرز کا کہنا ہے کہ` بھارتی دہشت گردی سے جہاں دیگر کاروبار زندگی متاثر ہوتے ہیں تو وہیں سب سے برا اثر وادی کی سیاحت پر پڑتا ہے۔سیاح وادی نیلم آنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں ۔اگر بھارتی فائرنگ کاسلسلہ مکمل طور پر رک جائے تو کشمیر کی سیاحت کشمیریوں کےلیے روزگار کا بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔
وادی نیلم سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور گیسٹ ہاؤس کے مالک کا کہنا ہے کہ ‘جب فوجوں کے درمیان فائرنگ نہیں ہوتی تو بڑی تعداد میں سیاح یہاں پر آتے ہیں جس سے ہوٹلز،گیسٹ ہاؤسز کے کاروبار میں کافی منافع ہوتا ہے مگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سے مہینوں مہینوں تک کوئی سیاح نہیں آتا اور گیسٹ ہاؤسز خالی پڑے رہتے ہیں اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کےلیے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

کشمیر میں اب حالات بدل رہے ہیں ۔گزشتہ ایک سال سے دونوں ممالک نے “سیز فائر معاہدے” کی پاسداری کر رکھی ہے جس سے وادی نیلم میں سیاحت کے شعبے نے ترقی کی ہے ۔پچھلے ایک سال میں پاکستان اور دنیا بھر سے بڑی تعداد میں سیاح وادی نیلم کے نظارے دیکھنے آئے جس سے سیاحت سے جڑے ہوئے افراد کو ریکارڈ منافع ہوا ہے اور اب اس شعبے کی طرف مزید بھی کئی لوگ منسلک ہورہے ہیں۔
سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اگر اسی طرح امن برقرار رہتا ہے تو یہ کشمیر کی سیاحت کےلیے بہترین ثابت ہوگا اور لوگ اپنے علاقوں میں ہی رہ کر باعزت روزگار کما سکیں گے۔

امن کون نہیں چاہتا ، ہر زندہ انسان بلکہ ہر ذی روح امن کا خواہاں ہے،امن صحتمند کی بھی چاہت ہے اور امن بیمار کی بھی آرزو ہے۔ امن کا بچہ بھی خواہشمند ہوتا ہےاور امن والدین کی بھی ضرورت ہے گویا کہ قیام امن معاشرہ کی اہم ترین ضرورت ہے۔ امن و امان انسانی اور بشری ضرورت ہے، ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے، اور کوئی بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکتا، قرآن مجید میں نعمتِ امن کو اللہ تعالی نے بطور احسان بھی جتلایا ہے، امن و امان بہت بڑی نعمت ہے اور اسکا زوال بہت بڑی سزا ہے جو وادی نیلم سمیت لیپہ سے لیکر چڑی کوٹ ،بٹل اور فری شیر خان سیکٹر تک کے لوگ بھگت رہے ہیں۔

تعمیر و ترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، وادی نیلم اور ایل او سی کے تمام باسی اس وقت امن کے متلاشی ہیں اور ان کے زخموں پر مرہم صرف امن ہی رکھ سکتاہے اور چاہتے ہیں کہ انہیں بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے مواقع ملیں۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ایل او سی کے لوگوں کو پرامن ماحول فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے اپنا کردار ادا کریں۔

امن سے ہی سماج میں ترقی ممکن ہے اس لئے ایل او سی کے لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے اور ایل او سی پر خلاف ورزیوں کو رکوانے کے لیے ہر ایک کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ وہاں سیاحت سمیت دیگر کاروبار زندگی رواں ہو جو ریاست کی معیشت کو بھی مستحکم کرے اور ہماری حالت بہتر ہو۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں