فرنگی کارتوس، گوشت کی خوشبو اور غدر 1857! انجنئیر حمزہ شہریار محبوب کی تحریر

سنہ 1857 کے واقعات پر انتہائی اہم تحقیق کرنے والی معروف تاریخ دان رعنا صفوی بتاتی ہیں: ’تب ایسی بندوقیں آئی تھیں جس کے کارتوسوں کو منہ سے کاٹ کر بندوق میں بھرنا پڑتا تھا۔”

سن 1857 جو کہ جنگ آزادی کے برس کے طور پر جانا جاتا ہے، درحقیقت انگریز راج کے خلاف ایسی توانا جدوجہد تھی کہ جس میں ہندو، سکھ ، مسلمان ہوں یا مقامی تاجر، فن کار،زمیندار ہوں یا مقامی حکمران و سپاہی، سبھی شامل تھے۔ جنگ آزادی جس کو غدر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، آخر کیونکر ہوئی اور اس جنگ سے منسلک بندوق اور بندوق سے جڑی گوشت کی خوشبو کی داستان کو جاننے کے لیے برصغیر کی تاریخ کے چند اوراق کو پلٹنا ضروری ہے۔

یہ سولہویں صدی کے آخر کا دو رتھا ۔ خطہ ہندوستان پر مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کی حکمرانی تھی اور یہ خطہ دنیا کی ایک چوتھائی مصنوعات تیار کرتا تھا ۔

جبکہ برطانیہ اس وقت دنیا کی مخص تین فیصد مصنوعات تیار کرتا تھا اور حکمرانی کا تاج ملکہ الزبتھ اول کے سر تھا۔ ان دونوں خطوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو برطانیہ زرعی و معاشی مسائل کا شکار جبکہ ہندوستان کی مٹی بھی سونااگلنے کے مانند تھی۔اس دوران ہند کی خوشحالی کی خبربرطانوی مہم جو برطانیہ پہنچا چکے تھے ۔ جس کے نتیجہ میں مصالحہ جات کی تجارت کے لیے لیونٹ کمپنی نے دو کوششیں کی مگر ناکام رہی۔ یوں 1600 میں دو سو سے زائد برطانوی تاجروں نے جیمز لینکاسٹر کی قیادت میں ملکہ سے تجارت کی اجازت طلب کی۔ اجازت مل جانے کے بعد کمپنی کی بنیاد رکھی گئی جس کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوں اگست 1608 میں کیپٹن ولیم ہاکر نے بحری جہاز کو سورت موجودہ گجرات پر لنگر انداز کر کے اس مہم کی بنیاد رکھی۔ مغلوں کی فوج لگ بھگ چالیس لاکھ تھی۔ لحاظہ شروع میں یہ تجارتی گرو کسی قسم کی جارحانہ مہم کے متعلق سوچنے سے باز رہا۔ یوں باد شاہ ہندوستان سے تجارت کی اجازت کے لیے ان تاجروں نے بات چیت اور گزارش کا طریقہ اپنایا۔ تین سال کی مسلسل کوشش کے بعد جہانگیر نے اس تجارتی کمپنی سے معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کی روشنی میں کمپنی کو تجارت کے مقصد کے لیے ہر بندرگاہ اور جگہ کے استعمال کی اجازت ملی۔ یورپ و ہند سے مصنوعات کے درآمد و برآمد کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا گیا۔ یوں برطانوی تاجروں نے معدنیات کو ہند سے برطانیہ بھیجنا اور بیچنا شروع کر لیا۔ جن میں سوت، پوٹاشییم، اور چائےوغیرہ شامل تھے۔

1670 میں برطانوی بادشاہ چارلس دوم نے پہلی بار کمپنی کو بیرون ملک نو مقامات پر جارحیت کی اجازت دی ۔ یوں یہ اجازت کمپنی کی عسکری محاز آرائی کا آغاز تھا۔پرتگالیوں، ولندیذی اور فرانسیسیوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد رفتہ رفتہ بنگال کے ساحل پر قدم جمانے کی کوشش کی۔ 1681 میں بنگال میں ولیم چائلد کی ٹیکس وصولی میں مسائل اور دیگر شکایات پربرطانیہ نے بحری بیڑہ روانہ کیا۔مگر طاقتور مغل فوج سے جھڑپ کے نتیجہ میں کمپنی کی فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اس مہم جوئی کے نتیجہ میں کمپنی کے پانچ مقامات کو تخس نخس کرکے کمپنی پر پابندی عائد کر دی گئی۔

تاج برطانیہ معافی طلب ہوا اور اورنگزیب عالمگیر نے کمپنی کو دوبارہ تجارت کی اجازت دے دی۔1707 میں اورنگزیب کی وفات کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقں میں ہونے والے آپس کے مسائل سے کمپنی کے عروج کا ظالمانہ و بہیمانہ دور کا آغاز ہوا۔ کمپنی نے مقامی افراد پر مشتمل فوج تیار کی، جو کے گزرتے وقت کے ساتھ جدید ہتھیاروں کی موجودگی میں مرہٹوں، نوابوں اور راجاوں کو شکست دیتی چلی گئی۔

175 میں بنگال نواب سراج الدولہ کی حکمرانی میں آنے کے بعد نیا ا اورہم رخ آیا۔ کیاد رہےکہ صوبہ بنگال ہندوستان کی کل پیداور کا پچاس فیصد پیدا کرتا تھا۔ کلکتہ میں کمپنی کی جانب سے قلعہ کی تعمیر پر نواب نے تنبیہاور باز رہنے کی تلقین کی۔ کمپنی نے اس کا حل حکمرانی کا خواب سجائےنواب سراج الدولہ کی فوج کے کماندار میر جعفر کی حمایت کی شکل میں کیا۔ 23 جون 1757 کیو پلاسی کے مقام پر توپوں اور میر جعفر کی غداری کے نتیجہ میں نوابسراج الدولہ کو ناکامی ہوئی ۔ جس کے نتیجہ میں کمپنی کے طابع حکومت قائم ہوئی اور تجارتی فوائد حاصل کیےجانے لگے۔ بعد ازاں جب میر جعفر کو کمپنی کے عزائم کا ادراک ہوا، تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ نواب سراج الدولہ سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد 1765 میں کمپنی نےحکمران ہند شاہ عالم کو شکست دی۔ یوں بنگال، بہار اور اڑیسہ پر مصسولات و انتطامی امور پر قبضہ جما لیا۔ اس کامیابی کے بعد ایک کہاوت زبان ضد عام ہو گئی۔
خلق خدا کی- ملک بادشاہ کا- اور حکومت کمپنی بہادر کی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمپنی کی جانب سے ہندوستان کی ریاست پر نہ صرف تجارتی بلکہ انتظامی، سیاسی، سماجی و مذہبی اثر و اسوخ بڑھتا چلا گیا۔ ایک صدی گزر جانے کے بعد ہندوستان کی کل ریاست کا انتظامی کنٹرول اسی فیصد انگریزوں جبکہ بیس فیصد ہندوستانیوں کے پاس تھا۔ نہ صرف انتظامی بلکہ انگریز فوج میں اسی فیصد ہندوستانی فوجی ہونے کے باوجود اعلی عہدوں پرصرف انگریز براجمان تھے۔

سیاسی و انتظامی اعتبار سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی راج کے لیے پرنسلی اسٹیٹس کا قیام عمل میں لایا۔ جو بعد ازاں سبسڈری الائنس کی صورت اختیار کر گیا۔ اس لائنس کی روشنی میں کمپنی پہلے ریاست سے بھاری بھر کم ٹیکس وصول کرتی اور تخفط کی مد میں فوج مہیا کرتی۔ لیکن اگر کوئی ریاست محصولات ادا نہ کر پاتی تو اس پر کمپنی مختار کل بن جاتی۔ اسی طرح ڈاکٹرائن آف لیپس کا طریقہ بھی متعارف کروایا گیا۔ جس کی روشنی میں اگر کسی ریاست کا حکمران مر جاتا اور اس کا وارث نہ ہونے کی صورت میں کمپنی اس ریاست کا کنٹرول سنبھال لیتی۔

سطور بالا میں جن حالات کا ذکر کیا گیا اس کے نتیجہ میں ہونے والی زیادتیوں نےہی جنگ آزادی 1857 کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹرائن آف لیپس کی صورت میں جھانسی کے حکمران کی بیوہ رانی لکشمی بائی کو اقتدار سے نہ صرف الگ کر دیا گیا بلکہ اس کے لے پالک بیٹے کو بھی حق حکمرانی نہ دیا گیا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ کمپنی نے اپنے ہی متعارفو مہیا کردہ پنشن کو بھی بند کر دیا۔ یوں رانی لکشمی بائے نے سب سے پہلے بغاوت کی کوشش شروع کی۔ اسی طرح کے مسائل کا شکار نانا صحھب ہوئے جو کہ پیشوا باجی راو دوم کے صاحبزادے تھے۔

کمپنی نے شروع سے ہی بھاری بھر کم ٹیکسز کی بھرمار کی۔ صورتحال یہ تھی کہ ایک زمیندار اگر دس بوری گندم کی پیداوار کرتا تو اس میں سےسات ٹیکس کی مد میں جمع کروانا پڑتی۔ چھوٹے کسان پہلے ہی ٹیکسس کے بوجھ تلے دب چکے تھے اور ان کی ذمینوں پر زمینداروں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ایک طرف ٹیکسز اتنے زیادہ اور اوپر سے زمین داری ، روتواری اور محل واری جیسے مسائل اتنے شدید تھے کہ ذمیندار بھی تنگ آ چکے تھے۔

اس سب صورتحال میں انگریز فوج میں موجود ہندو ، سکھ اور مسلمان سپاہی بھی نالاں تھے۔ کمپنی کی اوود کی چڑھائی نے بھی سپاہیوں کو انگیز سرکار سے نالاں کیا۔ مگر معاشی اعتبارسے کم تنخواہیں اور رتبہ کے اعتبار سے ہمیشہ ذیلی رینک میں تقرری جیسی وجوہات بھی بغاوت کے لیے ایندھن بنتی گئیں ۔

رعنا صفوی کے مطابق ”اس کے علاوہ بھی اسباب تھے کہ انھیں سمندر پار لڑائی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ تو برہمنوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پانی یعنی سمندر پار کر لیا تو ان کی ذات ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ترقی بھی صرف ایک حد تک ہوتی تھی ۔ اس طرح کی ان کی بہت ساری شکایتیں تھیں’۔

جب کہ کپنی نے تمام سپائیوں کے لیے کم سے کم ایک بار سمندر سے پار سروس کو لازم کر دیا تھا۔ سکھوں کو داڑھی کاٹنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لیکن زیادتیوں کے اس دور میں کمپنی پر غیر یقنی نے ایک ایسی وجہ نے بھی جنم دیا جو کہ ایندھن پر تیل کی مانند ثابت ہوئی۔

تب ایسی بندوقیں آئی تھیں جس کے کارتوسوں کو منہ سے کاٹ کر بندوق میں بھرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کے اندر گائے کی اور خنزیر کی چربی ہے لہٰذا جو مسلمان تھے وہ بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے اور ہندو بھی ان کو چھونے سے کتراتے تھے۔

الغرض ہندو، سکھ ، مسلمان ہوں یا مقامی تاجر، فن کار، زمیندار یا مقامی حکمران و سپاہی، سب ہی اس جابرانہ،منافقانہ و بہیمانہ تسلط سے تنگ تھے۔ سو بغاوت کا آغاز ہوا۔
فروری 1857 کو انیسویں نیو انفنٹری نے مشکوک کارتوس والی ان رائفلوں کے استعمال سے انکار کر دیا۔ جبکہ 29 مارچ 1857 کو بارکپور میں بھی یہی معاملہ رونما ہوا۔ مگر سپاہیوں کو زبردستی کارتوس منہ سے کھولنے پر مجبور کیا گیا۔ اور ایک جوان سپاہی منگل پانڈے نے اپنے انگریز افسر کو قتل کر دیا۔

منگل پانڈے کو بعد ازاں پھانسی تو دے دی گئی، مگر اس واقعہ نے دیگر سپاہیوں کو ہمت دی ۔ 9 مئی 1857 کو میرٹھ کے مقام پر 85 سپاہیوں کو اسی وجہ کی بنیاد پر نوکری سے برحاست اور مقید کر دیا گیا۔ مگر اس سے اگلے دن ہی ان سپاہیوں کے ساتھیوں نے ان کو آزاد کرا لیا۔ اور یہ سپاہی دلی روانہ ہو گئے اور 11 مئی کو دلی پہنچ کر بہادر شاہ ظفر سے ملاقات کی۔

بہادر شاہ ظفر اس وقت واحد شخص تھے کہ جو تمام باغی و انگریز راج سے تنگ لوگوں کو اکھٹا کر سکتے تھے۔ گو کہ بہادر شاہ ظفر فیصلہ کن صلاحیت کے مالک نہ تھے مگر واحد حکمران ہونے کی وجہ سے ان کی سیاسی اہمیت ضرور تھی۔

لحاظہ بغاوت کی سربراہی بہادر شاہ ظفر نے کی۔ شہشاہ ہند کا خواب سجائے بہادر شاہ ظفر نے سپاہیوں کی ترغیب پر دیگر باغی آوازوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ کانپور میں نانا صاحب اور ان کے کمان دار تتیا توپے نے جدوجہد کا آغاز کیا۔لکھنو کا محاز بیگم حضرت محل اور فازیہ آباد کا میدان مولوی احمد اللہ نے سنبھالا ۔ جبکہ آرہہ کا میدان زمیندارکمار سنگھ نے سنبھالا۔ رانی لکشمی بائی نے جھانسی میں راج کے خلاف مذاحمت کی مگر گوالیار کے مقام پر ناکام ہوئی۔

لیکن ان تمام کوششوں و جدوجہد کے شکست سے دوچار کرتے ہوئے 20 ستمبر 1857 کو انگریزوں نے دلی پر قبضہ جما لیا۔ اور بہادر شاہ ظفر و دیگر تمام کرداروں کو مقید و قتل کر دیا گیا۔ گویا ظلم سے چٹھکارا پانے کی خواہش و حسرت کچھ یوں خاکستر ہوئی:

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں، ا تنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں

جنگ آزادی کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں کہ جن کے تذکرہ کسی اور نشست میں ہی ممکن ہے۔ مگر جنگ آزادی کا اختتام ناکامی، نئی آزمائشوں کے آغاز، مسلمانوں کی ذبوں حالی، قتل و غارت اور بہادر شاہ ظفر کی وفات سے ہوا۔ مگر یہ جدوجہد اور اس کے نتیجہ میں سیکھے اسباق مسلمانان ہند کو ایک نئی راہ ،یعنی تحریک “تخلیق مملکت خدادا” کی راہ پر ڈال گئے!

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں