اسلاموفوبیا، دہائیوں پر محیط منظم سازش!حمزہ شہریار محبوب کی تحریر

1993 میں ایک مشہور مغربی دانش ور ہنٹلٹن نے ‘تہذیبوں کا ٹکراوکے عنوان سے ایک تنصیف شائع کی ۔جس میں مغربی تہذیب کو آزادی،انصاف،جمہوریت ،انسانی حقوق، اعلی اقدار و معیارات کا علمبردار جبکہ مسلم تہذیب کو ان معیارات سے نابلد قراردیا گیا۔ یوں اس تحقیق و تصنیف نے سر دجنگ کے اختتام کے بعد ایک نئی بحث کی وہ بنیاد رکھی جو کہ دانستہ طور پر بتدریج پروان چڑھائی گئی۔

جس کی بنیاد نوے کی دہائی کی قومیت پرستی، مغربی ویورپی ممالک کی ترقی و مسلم ممالک کے معاشی و سماجی بے راہ روی نے رکھی۔ درحقیقیت یہ اسلام کی تہذیب کے غالب آ جانے کا وہ خوف تھا کہ جس کے تدارک کے لیے ایک انجانے خوف کی بنیاد رکھی گئی کہ جس سے اسلام و اسلامی تہذیب کو اس حد تک خوف کی علامت بنا دیا جائے کہ ممکنہ طورپراسلام بطورٖغالب مذہب یا تہذیب ابھر نہ سکے۔ گو کہ اسلام کے نام سے ابھرنے والی تنطیموں نے ان عزائم کو مزید تقوئیت بخشی۔ نوے کی دہائی میں رانیمے ٹرسٹ نے ایک کمیشن قائم کیا ۔جس نے 1997 میں ایک رپورٹ شائع کیا جس میں اسلاموفوبیا کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ جبکہ9/11جیسے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

لفظ اسلامو فوبیا دو حصوںیعنی اسلام-فوبیا سے مل کر بنا ہے ۔ فوبیا سائنسی اصطلاح میں ایک انجانے خوف کی کیفیت کا نام ہے۔ یعنی سادہ معنوں میں اسلامو فوبیا ، اسلام کے خوف کا نام ہے۔ ویکیپیڈیا کی تعریف کے مطابق اسلام کا سیاسی طاقت بن جانے کاڈر، اور اسلامی حکومت کے غالب آ جانے کا خوف اسلامو فوبیا ہے ۔ جبکہ آکسفورڈ کی تعریف کے مطابق بھی اسلام کا سیاسی طور پر طاقت ور ہو جانا ہی اسلاموفوبیا ہے۔گویا یہ تعریفیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسلاموفوبیا کسی انفرادی یا شخصی خوف نہیں اور نہ ہی یہ لوگوں کے مابین خوف ہے، بلک یہ اسلامی تہذیب کے غالب آ جانے کا خوف ہے ۔ یوں یہ اسلامی و مغربی تہذیب کےٹکراو کا خوف ہے۔سرد جنگ کے اختتام کے بعد نوے کی آخری دہائی میں غیر مسلم ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے۔ معاشی ترقی و باہم شراکت داری کے بعد نیشنل ازم یعنی قومیت پرستی کو مزید توقیت ملی۔ ٹیکنالوجی ، تعلیم ، فنون لطیفہ اور میڈیا کی ترقی نے مغربی تہذیب کومثال بنانا شروع کیا۔

گو کہ ان برسوں میں مسلم ممالک مختلف اقسام کے مسائل سے دوچار تھے ۔ یوں ان مسلم ممالک سے کثیر تعداد میں لوگ ہجرت کرکے ان ترقی یافتہ ممالک میں آ بسے۔ گویا یہ ہجرت جدید گلوبلائزیشن کی طرف کی بھی ایک پیش رفت تھی۔ اس ہجرت سے اسلامی تہذیب بذریعہ مسلمان ان ممالک تک پہنچی۔ تہذیبویں کے اس امتزاج نے جلد ہی عدم برداشت کی صورت اختیار کی جس کے نتیجہ میں غیرمسلم کمیونیٹیز کی جانب سے مسلمانوں کی مذہبی و سماجی معیارات کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ جس کی ایک وجہ تو مختلف مذاہب کا یکساں ماحول میں اکھٹے ہونا تھا تو دوسری جانب اسلام و مسلمانوں کی تہذیب کے غالب آ جانے کے خوف کی وجہ سے اس مذہب کو ہی خوف کی علامت بنایا جانے لگا۔ گویا بتدریج ایسے محرکات پیدا کیے گئے کہ جس سے اسلای انتہا پسندی کو تقویت ملے اور نفرت پروان چڑھے۔ القائدہ کے قیام اور عراق جنگ کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام کو خوف کی علامت اور مغربی تہذیب کو نمونہ کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔ستمبر 2001 کو امریکہ کے مشہور ذمانہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر پے در پے حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ،جس کی ذمہ داری القائدہ نے قبول کی۔ یہ واقعہ در حقیقت اسلاموفوبیا کی موجودہ شکل کا حقیقی ماخذ ثابت ہوا۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ اور مغربی میڈیا نے اسی واقعہ کی بنیاد پر اسلام کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ درحقیت میڈیا کی رپورٹس کے ذریعے سے دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگردی سے نتھی کیا جانے لگا۔ یوں انہی کوششوں کی بنیاد مسلم انتہا پسندی اور مسلم دہشت گردی کو پروان چڑھایا گیا۔

معروف اسکالر و مصنف ڈاکٹر اکبر صلاح الدین احمد کے مطابق مسلمانوں کو محض مسلم نام کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ 9/11سے قبل مسلم نام کو دیکھ کر ترک یا کرد کہا جاتا تھا مگر اس کے بعد عرب و عجم کی تمیز کوختم کر کے اسلام و مسلمان سے یکساں ہی امتیازی سلوک کیا جانے لگا۔امریکہ کی افغان جنگ کے آغاذ کے بعد دہشت گرد کی ایک مخصوص قسم کی تعریف اور خاکہ کشی متعارف کرائی گئی۔ جس کے مطابق دہشت رد کا حلیہ لمبے بال ،داڑھی اور شلوارقمیض سے لیس بتایا اور دکھایا جانے لگا۔ اور افغانیوں کی امریکہ سے جنگ کواسلام انتہا پسندی سے نتھی کیا جانے لگا ۔ چونکہ کہ اسلام میں داڑھی سنت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اورشلوارقمیض سادہ لباس ہونے کی وجہ سے مقبول ہے۔ لحاظہ دہشت گرد کی خاکہ کشی سے دانستہ طور پر ہرفرد جو یہ حلیہ رکھتا ہو، امتیازی سلوک یا نظرسے پرکھا جانے لگا۔ یوں مغربی ممالک میں اس حلیہ کو ہی مشکوک بنا دیا گیا۔ حالانکہ بیسویں ایسے واقعات ایسے ہو چکے ہیں کہ جس میں دہشت گرد اس حلیہ کے بجائے سفید فام اور مغربی لباس اور کلین شیو میں رونما ہوئے۔ لیکن مسلمانوں کی سنت رسول و لباس کو ہی مغرب میں نشان بنیا جاتا رہا ہے۔اسی طرح دوسرااہم مسلہ، جو کہ حقوق خواتین اور آزادی خواتین کا ہے، بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام عورت کو پردہ کا حکم اور معاشی ذمہ داریوں سے مبرا کرتا ہے مگر مخصوص و مضموم عزائم و مقاصد کے ساتھ اسلام کے عورت سےمتعلق ان نکات کو پابندی و معاشرتی آزادی کے برخلاف سمجھا اور سمجھایا گیا۔اوراس بنیاد پراسلام کوتنگ نظر قرار دیا جانے لگا۔حالیہ کچھ برسوںمیں مخسوص قسم کے خاکہ کشی اور مذہبی بےحرمتی کے واقعات ہوئے۔ جس میں مسلمانوں کے جذبات کوابھارنے کی ایسی سرگرمیاں کی جاتی ہیں کہ جن کے نتیجہ میں مسلم،ان ایسا ردعمبل دیں کہ جس سے مغرف کے اسلام کے انتا پسندی والے موقف کو ترغیب ملےمسلمان چونکہ حرمت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اور تقدس مذہب کے بارے میں سخت جذبات رکھتے ہیں لہذا ان جذبات کو بھڑکانے کے لیے توہین رسالت جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں فرانس میں چارلی ہیپٹو کےنام سے منعقدہ مقابلہ خاکہ کشی میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خاکہ کشی کا مقابلہ رکھا گیا۔ اسلام میں چونکہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خاکہ کشی ممنوع ہے لہذا اس مسئلہ پر دنیا بھر سے ردعمل آنا شروع ہوا،۔

اس دوران ہی فرانس میں ایک شخص کا قتل کر دیا گیا کہ جس نے بطور استاد کمرہ جماعت میں بچوں کو پیغمبر آخر الزماںصلی اللہ علیہ وسلم کی تصاویر دکھائیں تھیں۔ اس واقعہ کے بعد فرانس کے صدر امیونل میکلارن نے اس واقعہ کو ڈھال بنا کر اسلام کو انتہا پسند قرار دیے جانے اور ریڈیکل اسلام قراردے کر ایک بار پھر متنازع بنانے کی باقاعدہ سازش کی۔اس طرح کے مقابلہ جات کروا کر جان بوجھ کر مسلمانوں کے ان جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے کہ جو حرمت رسول کی خاطر جان قربان کرنے کوتیار رہتے ہین ۔ اور انہی واقعات کی بنیاد پر اسلام کو ہی انتہاپسند قرار دیا جاتاہے۔قبل ازیں ڈنمارک میں خاکہ کشی کے واقعات، فرانس میں حجاب پر پابندی، 2009 میں سوئٹزر لینڈ کا مسجدوں کے میناروں پر پابندی اور2019 میں نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ، اسلام کے خلاف مغرب کی نفرت کا ثبوت ہیں۔حالیہ عرصہ میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے اسلاموفوبیاکے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اور پاکستان ، ترکی اور ملائیشیا نے فرانس کے اقدامات پر ایک منظم ردعمل کے اظہار کی کوشش کی ہے جوجو کہ خوش آئند ہے۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت ، قوم پرستی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی عالمی تناؤ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ، وہ عوامل جنہوں نے ’اسلامو فوبیا‘ پر روشنی ڈالی ہے ، جس کے نتیجے میں متعدد ممالک میں مسلمانوں کے خلاف حملے ہوتے ہیں۔ا نہوں نے زور دے کر کہا کہ “جان بوجھ کر اشتعال انگیزی” اور “نفرت انگیز اشتعال انگیزی” کو عالمی طور پر کالعدم قرار دیا جانا چاہئے۔گویا دہشت گردی کو اسلام سے نتھی، عورت کے پردہ کے احکامات کو اسلام کی تنگ نظری اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسے واقعات کو بنیاد بنا کر ایسا خوف قائم کر دیا گیا ہے کہ جس سے اسلام ایک خوفناک مذہب اور اسلامی تہذیب ایک خطرناک تہذیب کے طور پر پیش کی جا سکے۔ بطور مسلمان انفرادی و اجتمائی اعتبار سے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر و تعلیم کو حقیقی معنوں میں نہ صرف اجاگر کیا جائے بلکہ ‘اسلاموفوبیاجیسی اصطلاحات کے خاتمہ کے لیے اس کو دانستہ سازش کے طور پر دیکھا اور اس کا تدراک کیا جائے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں