اسلام آباد(پی این آئی)خاتون صحافی عاصمہ شیرازی بی بی سی اردو کیلئے لکھے گئے اپنے کالم میں تحریر کرتی ہیں کہ ۔۔۔ہوائیں سرسراتی کیوں ہیں جناب، کیوں نہ ان کی سرسراہٹ پر کوئی شق عائد کر دی جائے۔ صبا مچلتی کیوں ہے، کیوں نہ اُس کی سبک روی پر کوئی تعزیر عائد کر دی جائے۔ دریا بہتے کیوں ہیں، کیوں نہ اُن کی روانی پر جبر کا پُل باندھ دیا جائے۔یہ کون ہیں جو بہتے دریاؤں اور بہکتی ہواؤں اور صباؤں کو قابو کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا۔۔۔ اب کیسے ہو گا؟ مگر ظلم کی انصاف سے، باطل کی حق سے اور جھوٹ کی سچ سے ہمیشہ ضد رہی ہے۔ یہ مارشل لا تو نہیں۔۔۔ وطن عزیز میں جمہوریت کا راج ہے! خلق خُدا کی حکمرانی ہے، جمہوریت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رائج ہے۔ حُکمران عوام کو جوابدہ، مقتدر عوام کی طاقت کے سامنے سر نِگوں، شخصی آزادیاں موجود، انسانی حقوق زندہ باد، نہ حقوق کی راہزنی کا خوف، نہ انصاف کی راہ میں کوئی قدغن، عدالتیں آزادی اظہار کی ضامن اور وزیراعظم ’رعایا‘ کا حامی اور غریب پرور۔۔۔سب اچھا ہے۔۔۔ شُکر ہے مارشل لا نہیں ورنہ وطن عزیز میں صحافی سوال پوچھنے پر اور اہل علم اپنا حق مانگنے پر غائب ہو جاتے۔بلوچستان اور فاٹا کے عوام کسی محرومی کا شکار نہیں اور نہ ہی اُنھیں اپنا حق مانگنے پر زندگی سے محروم کیا جاتا ہے۔آئین کی مکمل عملداری ہے، فوج آئین کے مطابق حکومت اور اپنے وزیراعظم کی تابع ہے، سیاست سے میلوں دور اور صرف سرحدوں کی محافظ ہے۔۔۔ اور اس قدر حکومتی حکم کی تعمیل کرتی ہے کہ پوچھے بنا کوئی پالیسی نہیں بناتی اور نہ ہی کشمیر جیسی اہم پالیسی تبدیل کرتی ہے۔سیاسی، معاشی اور خارجہ پالیسیاں صرف پارلیمان میں ترتیب پاتی ہیں جہاں وزیراعظم عوامی نمائندوں اور منتخب پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔حکومت اور ریاست میں جو ہم آہنگی اب ہے گذشتہ ستر سالوں میں کبھی نہ تھی۔ ایک صفحے پر ایک سی تحریر ہے، مافیا سے بلیک میل نہ ہونے والی حکومت اور مافیاز کے آگے گھٹنے نہ ٹیکنے والی ریاست۔۔۔ابھی چند دن قبل ہی ریاست کے کہنے پر حکومت نے ایک مذہبی تنظیم پر دھڑلے سے پابندی عائد کر دی ہے اور اب عدالت اپنی مرضی سے اُنھیں پرفارم کرنے کی اجازت اگر دے گی تو کوئی روک ٹوک نہیں، آخر آزادی اظہار اور اجتماع کا حق اُنھیں آئین پاکستان نے دیا ہے۔ شُکر ہے کہ مارشل لا نہیں! میڈیا مکمل آزاد ہے، ہزاروں اخبارات اور جرائد چھپتے ہیں، سو سے زائد ٹی وی چینلز ہیں، کئی ویب سائٹس ہیں۔ یوٹیوب چینلوں کی بُہتات ہے، گز گز لمبی زُبانوں والے اینکر اور لمبی لمبی خبریں چھاپنے والے صحافی موجود ہیں۔اس قدر آزادی ہے کہ اب صحافی، میڈیا مالکان خود پابندیاں لگوانا چاہتے ہیں۔ابھی حال ہی میں سینیئر اینکر و صحافی حامد میر نے اپنا پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ خود بند کر دیا کہ ’مجھے اس قدر آزادی نہ دیں کہ میں بھول جاؤں کہ میں کہاں ہوں۔‘میڈیا مالکان خود ایک اور اتھارٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا کی آزادی نے تمام دُنیا کو پریشان کر دیا ہے کہ اگر اتنی آزادی پاکستان میں یوٹیوبرز کو حاصل ہو گئی تو کہیں روس اور چین خائف ہی نہ ہو جائیں۔ شُکر ہے کہ پاکستان میں مارشل لا نہیں۔۔۔ اگر مارشل لا ہوتا تو صحافی کُھل کر صرف حزب اختلاف کی بدعنوانیوں کی داستانیں نہ چھاپ رہے ہوتے اور نہ ہی اپوزیشن رہنما جیل جاتے۔مارشل لا ہوتا تو اسد طور، ابصار عالم کی غیر نصابی سرگرمیاں قابو میں رہتیں، ابصار عالم خود پستول کے سامنے کھڑے نہ ہو جاتے اور اسد طُور ’لڑکی کے بھائیوں‘ کو خود گھر نہ لے آتے اور اتنی فرمانبرداری نہ دکھاتے کہ خود پر ہی تشدد کرتے رہے۔ مطیع اللہ جان نے خود کو اغوا کر لیا اور اپنے ہائر شُدہ اغوا کاروں کے ذریعے ویگو گاڑیوں کے لشکر میں دن بھر گھومتے رہے۔خواتین صحافیوں کو بھی بالکل ہراس نہیں کیا جاتا بلکہ اُنھیں اس قدر احساس تحفظ ہے کہ یورپی یونین تک پریشان ہے کہ ان کے ممالک میں خواتین صحافیوں کو اتنی آزادی کیوں نہیں مل سکی۔سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کو شائستہ الفاظ سے نوازا جاتا ہے اور اس قدر حکومتی ترجمان عزت دیتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ نہ کردار کُشی نہ ہی گالم گلوچ۔ سہی معنوں میں ’ریاستِ مدینہ‘ جیسا احترام خواتین صحافیوں کو دیا جاتا ہے۔سیاسی آزادیوں کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر برطانیہ روانہ ہو گئے اور خود ہی میڈیا پر آنے پر پابندی لگا دی۔یہی نہیں اُن کی جماعت کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو قومی میڈیا پر اپنے بیانات کی بار بار کوریج کی پیمرا سے شکایت کر دی۔بہر حال جس قدر آزادی ہمیں مل گئی ہے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ اتنی آزادی کا ہم کریں گے کیا؟ شکر ہے ملک میں مارشل لا نہیں۔ نوٹ: یہ ایک طنزیہ تحریر ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں