یارخان گوجر قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو زیادہ تر بھیڑ بکریاں چھراتے ہیں مگر اس قبیلے میں جو کمزور طبقہ ہے وہ بکریاں نہیں پال سکتے اور وہ ہاتھ پاوں کا کوئی اور مزدوری کرتے ہیں۔ یار خان چترال بازار میں ہتھ ریڑی سے روزمرہ کے بنیاد پر مزدوری کرتا تھا شاہی بازار، کڑوپ رشت بازار، اتالیق مارکیٹ وغیرہ
سے خریدار جو دکانوں سے سودا سلف خریدتے اسے یارخان اپنے ہتھ ریڑی میں ڈال کر ان کے ساتھ گاڑی تک پہنچاتے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد اسے تیس سے پچاس روپے فی ٹرپ مل جاتا اور روزانہ وہ پانچ سو سے لیکر ایک ہزار تک مزدوری کرتا مگر جب سے کرونا وایریس پھیلنا شروع ہوگیا اور لاک ڈون کی وجہ سے مارکیٹیں بند ہوئے تو یارخان جیسے دیگر کئی مزدروں کی مزدوری حراب ہوئی۔ یارخان نے ایک دکاندار سے اس امید پر بیس ہزار روپے کا ادھار لیا کہ جب حالات معمول پر آجائے تو وہ اس قرضے کو واپس کرے گا مگر اسے کیا پتہ کہ حالات روز بروز بگڑے گی اور یارخان اس ادھار کی ادایگی سے قاصر رہا۔ یارخان بیمار پڑ گی اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کا آپریشن ہوگا۔ اسے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لایا گیا جہاں ایک واقف کار ڈاکٹر نے اس کے ساتھ تعاون کیا اور اس کا کامیاب آپریشن ہوا اب یارخان چارپائی پر پڑا ہے مگر اس بیس ہزار کے قرضہ واپس کرنے سے قاصر ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یارخان نکی بیوی بھی بیمار پڑ گئی ہے اب سے اپنی صحت یابی سے زیادہ اس قرضے کی واپسی کا فکر ہے جو اس نے لاک ڈون کے دوران ایک دکاندار سے لیا تھا۔ کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد ملک بھر میں لاک ڈون لگ چکا تھا جس سے چترال بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یارخان جیسے کئی دھیڑی مار مزدور لاک ڈون کے وجہ سے گھر
بیٹھے رہے اور قرض پہ قرض لیتے رہے مگر روزمرہ کی بنیاد پر ان کی مزدوری نہ ہونے سے وہ اس قرضے کو تاحال واپس نہیں کرسکے۔ یہ ایک یارخان کی کہانی تھی مگر یارخان جیسے کئی مزدور کار لوگ کرونا وایریس کی وجہ سے بے روزگار ہوئے اور قرضوں تلے دب کر اب ان میں یہ قرضہ واپس کرنے کی سکھت نہیں رہی۔ ضیاء الرحمان کا ڈاکحانہ چوک میں فو ٹو گرافی کا دکان تھا جس سے وہ اپنے اہل حانہ کیلئے روزی روٹی کماتا رہا۔ ضیاء الرحمان کے ساتھ اظہاراللہ بھی پیشہ ور فوٹو گرافر تھا ان کی اچھی حاصی آمدنی ہوا کرتی تھی مگر ایک تو ڈیجیٹل کیمرے اور موبائل میں بھی جدید کیمرے آگئے جس سے یہ صنعت بری طرح متاثر ہوا مگر رہی سہی کثر کرونا اور لاک ڈون نے پوری کردی۔اس نے فوٹو گرافی کی دکان حتم کرکے اس میں ایک ریسٹورنٹ کھول دیا جس سے اس کا گزر بسر ہوا کرتا تھا مگر لاک ڈون کی وجہ سے جب ملک بھر میں ہوٹل اور ریسٹورنٹوں پر پابندی لگ گئی تو ضیاء الرحمان کو بھی اپنا کاروبار بند کرنا پڑا جو اس نے بڑی مشکل سے شروع کیا تھا اب وہ گھر پر بیٹھا رہا اور ادھار لیکر بچوں کا خرچہ پورا کرتا رہا۔کرونا وائرس کی وجہ سے چترال کو ہر طرح کی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مارخور کی شکار کیلئے عام طور پر بین الاقوامی سطح پر بولی لگتی ہے اور کامیاب بولی دہندہ کو مارخور ہنٹنگ ٹرافی کا پرمٹ مل جاتا ہے جن کی
قیمت کروڑ سے روپے سے اوپر ہوتی ہے۔ اس رقم میں اسی فی صد مقامی لوگوں میں تقسیم ہوتا ہے جبکہ بیس فی صد سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ کرونا وایریس سے پہلے مارخور Hunting Trophy کی پرمٹ ایک لاکھ پچاس ہزار امریکی ڈالر پر فروحت ہوا تھا مگر جب کرونا پھیل گیا تو اس کی قیمت بھی گھٹ گئی اور امسال ایک شکار کیلئے صرف 85000 امریکی ڈالر کے عوض شکار کی پرمٹ مل گئی جو چترال کیلئے نقصان کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ تقدیر نساء ایک بیوہ خاتون ہے جو کرونا وایریس سے پہلے اپنے گھر پر دستکاری کا کام کرواتی اور اسے بازار میں بیچتی اس وقت اسے بے انظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھی پیسے ملتی اور اس سے اس کی گھر کا چولہا جل جاتا۔ کسی رحم دل شحص نے اسے عمرے پر بھیجا اس کی پاسپورٹ بن گئی اور عمرہ سے جب واپس آئی تو اس کو ملنے والا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امدادی رقم ملنا بند ہوگیا۔ 75 سالہ کریم شاہ آوی کا رہنے والا ہے جو سارا دن ہتھ ریڑے کے ذریعے مزدوری کرکے اپنی پانچ بیٹیوں کو پالتا ہے مگر کرونا وایریس کی وجہ سے جب مارکیٹ میں لاک ڈون لگ گیا تو اس کی مزدوری بھی متاثر ہوئی اس کو ابھی تک احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار روپے بھی نہیں ملتے۔ اس نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی جسے متعلقہ ادارے کو فارورڈ کیا گیا مگرکریم شاہ کو بھی آج سے پندرہ
سال پہلے کسی نے عمرے پر بھیجا تھا جس سے اس کا پاسپورٹ میں انٹری ہوا تھا اوراس کے بعد وہ ہرقسم کے امدادی رقوم سے محروم ہوگیا۔ اس سلسلے میں جب چترال کے ڈپٹی کمشنر سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اس قسم کی درخواستیں آتی ہیں جن کو ہم متعلقہ ادارے کو فارورڈ کرتے ہیں مگر ہمارے پاس ایسا کوئی فنڈ نہیں ہے جو ان متاثرین کو دیا جائے جن کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بند ہوا ہے یا دیگر امدادی رقم نہیں ملتا۔ان روزمرہ بنیادوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان سے بات نہ ہوسکی۔ علی محمد روزمرہ کے بنیاد پر مزدوری کرتا تھا وہ روزانہ بازار آتا تھا اور مزدوری کرکے اپنے بچوں واسطے کچھ نہ کچھ لے جاتا مگر کرونا وایریس کی وجہ سے جب تمام ترقیاتی کام بھی بند ہوئے توہ وہ بھی متاثر ہوا۔ سلیم خان ایک غریب شحص ہے جسے احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار روپے ملتا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ اس سے کے گھر کا چولہا نہیں جلتا کیونکہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے ان کا کہنا ہے کہ اس سے صرف گھی، چینی آٹا اور دال خرید سکتا ہے مگر ادویات اور کپڑوں، جوتوں کیلئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔ لاک ڈون کی وجہ سے کئی ہوٹل مالکان، دکانداران بھی بری طرح متاثر ہوئے مگر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا مزدور طبقہ ہے جن کی
زندگی کا انحصار صرف اور صرف روزمرہ کے بنیاد پر ملنے والی دھیڑی پر ہے اگر ان کی مزدوری لگ گئی تو ان کو 700 روپے ملتے ہیں اور اگر ان کی مزدوری نہیں لگی تو وہ حالی ہاتھ گھر لوٹ آتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب معاشیات کے ماہر پروفیسر غنی الرحمان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مہنگائی نے غریب آدمی کی کمر توڑا ہے اس میں بمشکل ان کا گزارا ہوتا ہے ان کا تجویز تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ نہ صرف روزمرہ مزدوری کرنے والے بلکہ سفید پوش کم آمدنی والے لوگوں کیلئے بھی حکومت کوئی ایسا پالیسی وضع کرے جس سے ان کی گھر کا چولہا جلتا رہے۔ ماہر معاشیات پروفیسر صاحب الدین کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو بلا سود قرضے دینا چاہئے اور ان کیلئے ایسے چھوٹے کاروبار شروع کرانے میں مفت مالی مدد کرنا چاہئے جن سے ان کی روزمرہ زندگی کے اخراجات اور ضروریات پورے ہوسکے۔ کرونا وایریس کا اب دوسرا لہر بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اگر صورت حال یہ رہی تو حدشہ ہے کہ اس سے مزید مزدور کار لوگ متاثر ہوں گے اور بعض لوگ تو فاقہ کشی پر بھی مجبور ہوسکتے ہیں۔مزدوروں کے حقوق کیلئے چترال میں کوئی فعال ادارہ کام کرتے ہوئے نظر نہیں آیا۔تاہم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صوبائی کو آرڈینیٹر سرتاج احمد خان چترالی سے جب اس سلسلے میں پوچھا گیا تو
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا وفد اس سلسلے میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری خیبر پحتون خواہ سے ملاقات کرکے روزمرہ کے بنیاد پر کام کرنے والے مزدوروں اور کاروباری طبقے کے مشکلات کے بارے میں بات چیت کی گئی۔ سرتاج احمد خان نے بتایا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے یقین دہانی کرائی کہ جو کاروباری طبقہ سود پر قرضے نہیں لینے چاہتے یعنی بلا سود قرضہ لینا چاہتے ہیں تو صوبائی حکومت ان کیلئے تین ارب روپے محتص کررہے ہیں جو سود کی مد میں ان بنکوں یا کمرشل اداروں کو ادا کی جائے گی جن سے یہ کاروباری طبقہ بلا سود قرضہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سرتاج احمد خان نے مزید بتایا کہ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی کوششوں سے قرضوں پر سود کی شرح چودہ فی صد سے کم ہوکر صرف سات فی صد کر دی گئی ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ خیبر پحتون خواہ کے صوبائی ڈایریکٹوریٹ میں جب اس سلسلے میں پوچھا گیا تو ان کے ترجما ن اعجاز احمد نے بتایا کہ حکومت نے ایسے مزدور کار طبقے کی امداد کیلئے پیکیج کا اعلان کیا تھا کہ احساس پروگرام کے تحت ان کو بارہ ہزار روپے دئے جائیں گے تو جن مزدوروں نے اس کیلئے آن لائن ایپلائی کیا تھا ان کو بارہ ہزار روپے مل گئے اور ان کو دوسری قسط بھی ریلیز کی گئی مگر جنہوں نے کسی وجہ سے بروقت اس کیلئے Apply نہیں کیا ان کو نہیں ملے۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ بعض مزدوروں نے
یہ شکایت کی کہ جب انہوں نے موبائیل فون سے آن لائن درخواست جمع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا قومی شناحتی کارڈ نمبر بھیج دیا تو جن کے بیگمات ملازم تھی یا جن کا پاسپورٹ بنا تھا ان کو یہ امداد نہیں ملی تو ان کا جواب تھا کہ اس میں ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے یہ حکومت کی ایک پالیسی ہے اور پالیسی پر بات کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ چترال کے تاجر یونین کے صدر شبیر احمد نے بتایا کہ چترال میں زیادہ تر کاروبار پھٹان لوگ کرتے ہیں جن میں بڑے کاروبار مثلاً آشیائے خوردنوش کی چیزیں، سبزی فروش، پھل فروش، سمینٹ، سریا اور میٹریل کا کاروبار کرنے والے پشاور دیر، تیمر گرہ، بٹ حیلہ سے آئے ہوئے ہیں جبکہ منیاری کا سامان بیچنے والے لوگ مہمند اور باجوڑ کے اضلاع سے آئے ہوئے ہیں۔ شبیر احمد نے بتایا کہ ان دکانداروں کی تعداد 12000 ہیں جن میں گودام مالکان بھی شامل ہیں۔ ان میں پچاس فیصد دکاندار غیر مقامی یعنی دیگر اضلاع سے آئے ہوئے ہیں جو چترال میں کاروبار کرتے ہی۔ انہوں نے کہا کہ چترال بازار میں دو سو کے قریب ہتھ ریڑی والے مزدور کار ہیں جن کی بچوں اور خود ان کا پیٹ پالنے کیلئے روزمرہ کے بنیاد پر مزدوری پر انحصار کرتے ہیں۔ لاک ڈون کی وجہ سے یہ لوگ بھی بری متاثر ہوئے اور اکثر دکانداروں سے ادھار پر کھانے پینے کی چیزیں خرید رہے ہیں۔ شبیر احمد نے کہا کہ ان میں سے اکثر ایسے مزدور کار
بھی ہیں جو ایک وقت کا روٹی بھی نہیں کھا سکتے اسلئے تاجر یونین کی پلیٹ فارم سے میں نے روزانہ چالیس مزدوروں کیلئے مفت کھانے کا بندوبست کیا ہوا ہے جو ایک ماہ تک چالیس مزدور اس ہوٹل سے مفت کھانا کھاتے ہیں اور ایک ماہ کے بعد دوسرے چالیس مزدور باری بار جاکر مفت کھانا حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں سعودی عرب سے جو امدادی پیکیج آیا تھا میں نے 31 ہتھ ریڑی والے مزدوروں کا فہرست ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈیزاسٹر کو فراہم کرکے درخواست کی تھی ان مزدوروں کو بھی یہ رضائی، کمبل اور گرم پوشاک وغیرہ دیا جائے مگر بد قسمتی سے ان کو کچھ بھی نہیں ملا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کتنے ہتھ ریڑی والوں کو احساس پروگرام کے تحت 12000 روپے کا امدادی پیکیج ملا تھا تو ان کا جواب تھا کہ صرف دس فی صد لوگوں کو وہ ملا کیونکہ اکثر یہ مزدور لوگ موبائل فون نہیں رکھتے اور ان کو معلومات بھی نہیں ہوتی یا ان کو طریقہ نہیں آتا جبکہ احساس پروگرام کیلئے موبائل فون کے ذریعے آن لائن درخواست جمع کرنا تھا جو ہر مزدور کی بس کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب لاک ڈون کی وجہ سے سکول، بازار، تعلیمی ادارے اور مارکیٹ بند ہوجاتا ہے تو یہ مزدور لوگ بھی اس کی ضد میں آجاتے ہیں۔ شبیر احمد نے بتایا کہ میں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ یوم مزدور منانے کی بجائے عملی طور پر ان
کیلئے کوئی کام کرنا چاہئے جن سے ان مزدوروں کو کچھ فائدہ ملے اور ان کیلئے کوئی پیکیج کا اعلان کرکے اس پر عملی طور پر کام کیا جائے تاکہ ان کے بچے بھی تعلیم حاصل کرسکے اور ان کی مشکلات میں بھی کمی آسکے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ان مزدوروں کی حقوق کیلئے چترال میں کوئی ادارہ کام کرتا ہے جو جواب نفی میں ملا۔ تاہم ان کی تجویز تھی کہ باہر سے جو امداد آتا ہے ان میں سے ان روزمرہ کے بنیاد پر کام کرنے والے مزدوروں کا بھی حصہ ہونا چاہئے تاکہ ان کے گھر کا چولہا بھی جلتا رہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں