جب میرے والد صاحب بیمار ہوئے تو اسے ہم چترال ہسپتال لے گئے ان کا ٹیسٹ کرایا گیا اور جب رزلٹ آیا تو؛پتہ چلا کہ میرے والد کو کرونا ہوا ہے یہ خبر ہمارے لئے قیامت سے کم نہیں تھی میرے والد صاحب جو سماجی کارکن تھے اور عمر بھر دوسروں کا خدمت کرتے رہے مگر جب اس پر برا وقت آگیا تو اس کا خدمت
نہ ہوسکا۔ اسے چترال ہسپتال میں داحل کیا گیا مگر چترال ہسپتال میں ونٹی لیٹر حراب تھا اسے مجبوراً خیبر ٹیچنگ ہسپتال KTH پشاور لے گئے۔ وہاں میرا ایک رشتہ ڈاکٹر بھی تھا مگر اس کے باوجود ہم پر جو بیتی وہ خدا کسی کو بھی نہ دکھائے۔ ہسپال میں مریض کے علاج معالجے کے علاوہ اس کے ساتھ اٹنڈنٹ کے رہنے سہنے، کھانے پینے، صفائی ستھرائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ حاص کر جو مریض ایمرجنسی میں جاتے ہیں ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے اور پشاور میں اگر ان کا جان پہچان بھی نہ ہو ان کیلئے اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ میرا والد تین دن آی سولیشن میں پڑا تھا اس کے ونٹی لیٹر لیٹر پر مسلسل آکسیجن دیتا رہا جب آکسیجن ہٹاتے تو اس کا سانس بند ہوجاتا۔ آحری لمحات نہایت تکلیف دہ تھے ہمیں والد سے ملنے سے بھی روک دیا گیا اور بعد میں یہ بری خبر سنائی گئی کہ ان کا انتقال ہوا۔ ایک عام میت اور کرونا وایریس سے مرنے والے میت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کے پاس اکثر ان کے لواحقین بھی نہیں چھوڑتے اور لوگ بھی اس کے جنازے میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں ہم نے والد کی میت کو لیکر چترال روانہ ہوئے مگر ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حیالات کا اظہار بشیر احمد مرحوم کے بیٹے سعود بشیر نے کی جو اپنے والد بشیر احمد کے بارے میں بتارہے تھے جو کرونا واریس کی وجہ سے پشاور کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے تھے۔ انہوں
نے مزید بتایا کہ جب کوئی مریض پشاور ریفر کیا جاتا ہے تو پشاور کے ہسپتالوں میں ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریض کی علاج کی ادویات خریدنے ان کے علاج کے علاوہ ان کے ساتھ جو اٹنڈنٹ ہوتے ہیں ان کو بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر چترال کے ہسپتال میں تمام سہولیات فراہم کی جائے تو مریضوں کو؛پشاور ریفر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگرچہ چترال کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپال ال 2010 میں کیٹیگی بی میں اپ گریڈیشن ہوا تھا مگر اس وقت سے لیکر ابھی تک اس میں ایک اضافی کمرہ تک نہیں بنایا گیا۔ڈاکٹر نثار احمد جو ڈپٹی ڈی ایچ او ہے ان کو بھی کرونا ہوگیا تھا جو پشاور کے ایک سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہے ان سے جب فون پر بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دس دن تو وہ ونٹی لیٹر پر موت و حیات کے کشمکش میں مبتلا تھے اور کافی اذیت سے گزرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے چترال کے واحد ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں چار ونٹی لیٹرز ہیں مگر وہ فنکشنل عینی فعال نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ سیریس مریضو کو پشاور جو مجبورا! ریفر کرنا پڑتا ہے۔ کرونا وایریس کے دوسرے لہر نے ایک بار پھر لوگوں کو پریشان کرنا شروع کیا ہے اس سلسلے میں چند ایسے مریضوں یا کرونا سے مرنے والے افراد کے لواحقین سے مل کر ان کی پریشانی جاننے کی کو شش کی گئی تاکہ ان مسائیل کا کوئی ممکنہ حل نکالا
جاسکے۔ کرونا وایریس کا دوسرے لہر نے جہاں دنیا بھر کو پریشاں کیا ہے وہاں پاکستان میں بھی تیزی سے اس وباء سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چترال جیسے دور آفتادہ اور پسماندہ ضلعوں میں اس وباء نے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ چترال دو اضلاع میں تقسیم ہوا ہے ضلع اپر چترال اور لوئیر چترال مگر دونوں اضلاع میں ڈاکٹروں کی شدید قلعت ہے۔ اسی طرح چترال کے کسی بھی ہسپتال میں کرونا ٹیسٹ کیلئے کوئی لیبارٹری موجود نہیں ہے۔ یہاں کرونا ٹیسٹ کیلئے مشکوک مریض سے نمونے لیکر گاڑی کے ذریعے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور لے جایا جاتا ہے جس میں دو دن لگتے ہیں اور اگر راستے میں گاڑی حراب ہو تو زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ لوئیر چترال میں کرونا کے کو آرڈینیٹر ڈاکٹر تاثیر جمال کے مطابق یہاں مقامی طور پر ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے یہ وباء پھیلنے کا بھی حدشہ ہے کیونکہ ہم اپنے طور پر مشکوک مریض کو تو سمجھاتے ہیں کہ وہ تنہائی احتیار کرے مگر ٹیسٹ کے بغیر اکثر ایسے مریض لوگوں میں گھل مل جاتا ہے۔ اور ان سے دوسرے لوگوں کو بھی کرونا لگ سکتا ہے۔ڈاکٹر تاثیر کے مطابق ان کے پاس گاڑی کیلئے تیل اور دیگر سہولیات کی بھی کمی ہے۔ ان کے مطابق چترال میں روزانہ دو سو سے لیکر دو سو تیس تک ٹیسٹ کیلئے نمونے اکھٹے کئے جاتے ہیں اور ان
نمونوں کو ٹیسٹ کیلئے پشاور لے جایا تا ہے۔ اب ان نمونو ں کو پشاور لے جانے میں بارہ گھنٹے لگتے ہیں رات دیر تک گاڑی پہنچ جاتی ہے جسے اگلے روز خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں جمع کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اگر چترال میں مقامی طور پر لیبارٹری کا بندوبست کیا جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ ڈاکٹر تاثیر کے مطابق پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ کی کمی تو نہیں ہے البتہ یونیورسل ٹرانسپورٹ میڈیا میں کچھ مسائل ضرور ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ لوئیر چترال میں صرف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں چار عدد وینٹی لیٹرز ہیں جو کام نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا اپنا ایک ڈاکٹر جو ڈی ایچ او کے دفتر میں تعینات تھے ڈاکٹر نثار کو کرونا ہوا تھا جسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا اب اس کی حالت بہتر ہے مگر یہاں ہمارے پاس ونٹی لیٹر نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مریضوں کو مجبوراً پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ڈایگنوس لیبارٹی نہ ہونے سے اس کی ٹیسٹ پر بہت وقت لگتا ہے اور جب تک مریض کا رزلٹ آتا ہے تب تک وہ اپنا کرچکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چترال میں مقامی طور پر لیبارٹری کا بندوبست کیا جائے تو یہ بہت اچھا ہوگا کیونکہ ہم جن مریضوں کا ٹیسٹ کرتے ہیں تو وہ آیسولیشن میں نہیں جاتا ہے ان کا اکثر یہی کہنا ہوتا ہے کہ میرا ٹیسٹ ابھی تک نہیں آیا ہے اور اس طرح اس سے دیگر لوگوں کو بھی یہ وایریس پھیل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹریس، ٹیسٹ اور قرنطینہ ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لوئیر چترال میں 65 ایکٹیو کیس ہیں لوئیر چترال میں کل پازیٹیو کیس 859 ہیں اور ہم نے 10800 مشکوک لوگوں کا ٹیسٹ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک آٹھ افراد کرونا کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر لوئیر چترال ڈاکٹر شہزادہ حیدر الملک کے مطابق لوئیر چترال میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال، ایک تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال (گرم چشمہ) دو کیٹیگری ڈی ہسپتال بونی اور دروش میں 6 دیہی مرکز صحت RHC، اسی طرح 19 بنیادی مراکز صحت BHU اور 32 سول ڈسپنسریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحصیل ہیڈ کوارٹز ہسپتال گرم چشمہ آغاخان ہیلتھ سروس کے حوالہ ہوا ہے مگر وہاں بھی ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ اسی طرح آر ایچ سی آیون میں ایک خاتون ڈاکٹر کی آسامی کی حالی پڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ بی ایچ یو بمبوریت میں ڈاکٹر کی آسامی حالی ہے جس سے وہاں کے لوگوں کے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح کیٹیگری ڈی ہسپتال دروش میں لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔ ڈاکٹر سلیم سیف اللہ جو لیڈی ہیلتھ ورکرز کے نیشنل پروگرام کے کو آرڈینیٹر ہے ان کے مطابق چترال میں LHW کے 105 آسامیاں حالی ہیں جس کیلئے ہم نے ڈایریکٹر جنرل صحت سے درخواستیں منگوانے کیلئے لکھا ہے اور جب یہ حالی آسامیاں پر جائے تو اس
سے بھی صحت کے حوالے سے کافی فرق پڑے گا۔ اس سلسلے میں جب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شمیم سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ DHQ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دونوں اضلاع کا یہ واحد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ہیں جو 200 بیڈ پر مشتمل ہے۔ یہاں ڈاکٹروں کی کل منظور شدہ آسامیاں 106 ہیں جن میں پچھلے دس سالوں سے 57 آسامیاں حالی پڑی ہیں۔ ان میں 21 سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی حالی آسامیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مریضوں کو مجبورا پشاور ریفر کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں کارڈیالوجسٹ، نیورو سرجن، آرتھوپیڈک سرجن، نیفرالوجسٹ، نیورالوجسٹ وغیرہ کی سہولیات موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ تر مریضوں کو پشاور وغیرہ ریفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی عدم موجودگی میں صحت کی مد میں خدمات فراہم کرنے میں بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ ڈاکٹر شمیم کے مطابق دونوں اضلاع سے گائنی کے بہت زیادہ مریض یہاں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے گائنی یونٹ پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائریس کے دوسرے لہر کی آمد پر اس ہسپتال کا HDU/ICU مکمل طور پر فعال نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس تربیت یافتہ عملہ، مرکزی آکسیجن پلانٹ، ونٹی لیٹرز اور پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ کی بھی شدید کمی ہے۔ ڈاکٹر شمیم کے
مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال سے زیادہ تر کارڈیالوجی، نیفرالوجی، آرتھوپیدک، سائکاٹرک، نیور و سرجن، سکن، کینسر، کمپلیکیٹڈ گائنی کیس بھی پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق اس ہسپال سے ہر ماہ 70 مریضوں کو پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گائنی یہاں ہونے کے باوجود بعض اوقات وہ کیس پیچیدہ بن جاتا ہے تو ان کو بھی پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چترال کے معروف سکالر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی سے بھی رابطہ کیا گیا ان کا کہنا ہے کہ ان کا آبائی گھر ضلع اپر چترال کے بلیم گاؤں میں ہے جہاں ابھی تک ہسپتال کی سہولت موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع اپر چترال نو آباد ضلع ہے وہاں ابھی تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال تک موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر مریض اپر چترال سے بھی لوئیر چترال کے DHQ ہسپتال کا رح کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فیضی سے جب چترال میں صحت کے حوالے سے جامع سہولیات اور انتظامات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں غیر ملکی فنڈ سے ایک برن سنٹر تعمیر ہوا ہے جس میں آگ سے جلے ہوئے مریضوں اور زحمیوں کا علاج کرنا تھا مگر ابھی تک یہ برن سنٹر فعال نہیں ہے اس میں عملہ تک نہیں ہے جبکہ چترال میں اکثر گیس سلنڈر پھٹنے سے حادثات پیش آتے ہیں جس میں لوگ جل جاتے ہیں ایسے مریضوں کو پشاور ریفر کیا
جاتا ہے جن میں اکثر کوئی بھی زندہ نہیں آتا۔ معروف سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر کے مطابق چترال میں صحت کے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اتوار کے روز آیون سے تعلق رکھنے والے ایک پھول جیسے بچے کو سانس کی تکلیف پیدا ہوئی اسے جب دیہی مرکز صحت آیون لے جایا گیا تو وہاں موجود عملہ نے کہا کہ ان کے پاس آکسیجن وغیرہ کی سہولت موجود نہیں ہے لہذا بچے کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لے جایا جائے بچے کو جب چترال لارہے تھے تور استے میں ا س کی طبیعت مزید بھگڑ گئی جسے فوری طور پر بنیادی مرکز صحت بروز لے جایا گیا مگر وہاں بھی آکسیجن کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بچہ جاں بحق ہوا۔ ضلع اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر شاہ سعود سے جب رابطہ کرکے صحت کی سہولیات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ضلع اپر چترال میں ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ سامان کی بھی کمی ہے جس کیلئے انہوں نے صوبائی حکومت کو باقاعدہ لکھا ہوا ہے اور تحریر کے ذریعے محتلف چیزوں کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع اپر چترال میں آئی سولیشن کیلئے انہوں نے 20 عدد بیڈ، بیس عد د آکسیجن سلنڈر، وغیرہ 44 چیزوں کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حالیہ کورونا کے دوسرے لہر کی روک تھام کیا جاسکے۔ حاجی وحید کا کہنا ہے کہ چترال میں آئی سپیشلسٹ تین سال پہلے ریٹائر ہوا ہے مگر ابھی
تک دوسرا آئی سپیشلسٹ تعینات نہیں کیا گیا اور لوگ آنکھوں کی علاج کیلئے پشاور جانے پر مجبور ہیں۔ واضح رہے کہ چترال کی سڑکوں کی حالت نہایت حراب ہیں اور بالائی چترال میں محتلف وادیاں ہیں جو ایک دوسرے سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان وادیوں میں اکثر صحت کی سہولیات کی فقدان کی وجہ سے لوگ روایتی طریقوں سے علاج کراتے ہیں۔ مقامی لوگ صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ چترال جیسے پسماندہ اور دور آفتادہ اضلاع کو ہنگامی بنیادوں پر صحت کی سہولیات فراہم کی جائے تاکہ مریضوں کو پشاور ریفر کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور ان کا علاج یہاں ممکن ہوسکے۔ ؎ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر چترال فضل باری سے بھی اس سلسلے میں پوچھا گیا کہ کرونا وایرس کا دوسرا لہر تیزی سے پھیل رہا ہے اگر ضرورت پڑی تو حکومت لاک ڈون بھی لگا سکتا ہے تو چترال میں آشیائے خوردنوش کی کیا صورت حال ہے حاص کر گندم کی سٹاک سرکاری گوداموں میں کتنا پڑا ہے۔ کیونکہ چترال کو رعایتی نرح پر گند م آتا ہے جو سرکاری غلہ گوداموں میں فروخت ہوتا ہے اور ان گوداموں سے خریدی گئی گندم لوگ پن چکی کے ذریعے پھیس کر آٹا بناتے ہیں۔ ڈی ایف سی چترال کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے پاس 3900 ٹن گندم پڑی ہے جبکہ چترال میں روزانہ 75 ٹن گندم خرچ ہوتی ہے تو موجودہ سٹاک چترال کیلئے 52 دنوں کیلئے کافی ہے جبکہ
مزید سٹاک بھی آآرہاہے اور ہمیں گندم کی قلعت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم لاک ڈون کی وجہ سے دیگر چیزوں کی قلعت پیدا ہوسکتی ہے جیسے تازہ سبزی، مرغی، گوشت، پھل وغیرہ۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں