3 دسمبر کا دن یوم معذور کے نام تو ہے مگر ملک میں ایک کروڑ اسی لاکھ معزور افراد کے فلاح و بہبود کے لیے نہ کوئی عملی اقدام کیا جارہا ہے اور نہ آن کے حقوق کا تحفظ کیا جارہا ہے کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے رہنے والے تمام افراد اپنی استعداد کے مطابق اس میں اپنا حصہ ڈالیں
مگر ہمارے ملک میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد جو کسی بھی معذوری کا شکار ہوتے ہیں انہیں از خود ہی بھکاریوں کا درجہ دیتے ہیں ترقی یافتہ ممالک نے انہیں خصوصی افراد کا درجہ دے کر کئی دہائیوں قبل اس بات کی کوشش شروع کر دی تھی کہ ان افراد کی معذوری کو ان کی مجبوری نہیں بننے دیا جائے کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن کے ذریع وہ بھی عام افراد کی طرح اپنے روزمرہ کے امور انجام دے سکیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 30 کروڑ افرادجسمانی طور پر معذور ہیں جن میں 80 فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دس فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے اور دنیا کی 30 کروڑ ابادی معذوری جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ اسی لاکھ افراط جسمانی ذہنی نابینا بولنے اور سننے سے معذور ہیں جن کی بڑی تعداد بچوں کی ہے ملک میں کوئی مناسب سرکاری ادارہ موجود نہیں جو معذور افراد کیلئے بہتر انداز میں انہیں تعلیم اور ہنر سکھانے کے لئے لیے سنجیدگی سے کام کرے اور ان کی زندگی آسان بنانے میں حکومتی عدم دلچسپی پر مایوسی ہوتا ہے معزور افراد ملک کے سرمایہ اور معاشرے کا حصہ ہیں انہیں سہولت دے کے کار امد فرد بنایا جاسکتا ہے دوسری جانب حکومت اور دیگر سماجی ادارے ہر سال معذور افراد کے نام فائیو سٹار ہوٹل اور اعلی شان ہال
میں پروگراموں کے نام پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر ان پروگراموں سے معذور افراد کے زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتا دنیا کے بہت سے ممالک میں معذور افراد کے لیے ماہانہ کی بنیاد پر فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں اور ان کے فلاح و بہبود کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی ادارے بھی آگے آتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ اس کے برعکس ہے یہاں معزور افراد کو پیشہ ورانہ بھیک مانگنے والے افراد کے کیٹیگری میں شامل کیا جاتاہے اور ان کو معاشرے پر بوجھ سمجھا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور دیگر سماجی ادارے معذور افراد کی بحالی آن کی تعلیم و تربیت آن کے سماجی ومعاشی حالات کا جائزہ لیکر ان کو معاشرے کے لیے کارامد افراد بنانے کے لیے حکومت اور دیگر سماجی ادارے اقدامات کریں معذور افراد کی بحالی کےلئے حکومت کے اپنے اعلان کر دہ پوائنٹ پر عمل درآمد کیا جائے یومِ معذور اور بجٹ کے اعلان کے موقع پر معذور افراد کی بحالی اور ان کے فلاح و بہبود کے اعلانات صرف اعلانات تک محدود ہوجا تے ہین ان پر عمل درآمد نہیں کیا جا تا مثلاً سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے کوٹہ پر مکمل عملدرآمد نہیں ہورہاہے جہاز ریلوے اور مسافر بسوں میں ان کےلئے رعایت کے احکامات ردی کی ٹرکری تک حدود ہوگئے ہیں معزور اور خصوصی افراد کے لئے بلوچستان حکومت نے
چار سال قبل ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اس پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا کیا معذور اس معاشرے کے افراد نہیں ان کے زندگی کے معاشی ضروریات نہیں موجود حکومت کے دور میں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر اینڈ خصوصی تعلیم میر اسد اللہ بلوچ کی جانب سے بلوچستان بھر کے معذور افراد کو پہلی مرتبہ موثر سائیکل فراہم کئے گئے ہیں جو اچھا اقدام ہے جس سے بلوچستان بھر کے ہزاروں معذور افراد استعفادہ کررہے ہیں ضلع پنجگور میں رجسٹرڈ معذور افراد کی تعداد تقریباً سات سو تک پہنچ چکا ہے بلوچستان میں معذور آور خصوصی افراد کی بحالی کے لیے ایسوسی ایشن کے صدر شکیل احمد غریب اہم کردار ادا کر رہے ہیں اس نے ہر وقت معذور افراد کے حقوق کیلئے نہ صرف آواز بلند کی ہے بلکہ ان کے فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کئے ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ پنجگور میں معذور افراد کے حقوق کیلئے چاکر صدیق بھی کام کررہے ہیں پنجگور میں سوشل ویلفیئر آفیسر کے ڈپٹی ڈائریکٹر رحمدل بلوچ اور اس کی ٹیم صوبائی وزیر میر اسد اللہ بلوچ کی خصوصی ہدایت پر معذور افراد کے رجسڑیشن اور بحالی کے لیے کام کررہے ہیں جو اچھا اقدام ہے امید ہے کہ معذور اور خصوصی افراد کے لئے تعلیم اور ہنر سکھانے کے لئے کوئی پروگرام مرتب کیا جائے گا اس طرح کے اقدامات کریں جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے علیحدہ نہ سمجھیں اور معاشرے میں
اپنا متحرک کردار ادا کرسکیں۔پاکستان میں خصوصی افراد بہت زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔ملک میں معذوری سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے سبب اداروں کی انتظامیہ اور کارکنان خصوصی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کرپاتے ہیں۔ انہیں اعلی تعلیم اور مہارتوں کی بجائے صرف جسمانی معذوری کی بنا پر ملازمت کے لیے رد کردیا جاتا ہے یا ان کی قابلیت کے لحاظ سے بہت کم تنخواہ کی پیش کش کی جاتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں معذورین کے لیے قابلِ رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار آلات کی بدولت سماعت اور بصارت سے محروم افراد بھی آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کاروباری اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں معذوری کی اقسام کے مطابق اپنے اداروں میں ملازمتیں پیدا کرنے کی آگاہی ملنی چاہیے۔ پاکستان نے معذور افراد کی بحالی کے عالمی کنونشن بھی دستخط کیے ہوئے ہیں اور ریاست ان معذور افراد کی بحالی کی ذمہ دار ہے،معذور افراد کے لیے حکومت کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں ہے،حکومتی شخصیات معذوروں کی زندگی سنوارنے اور ان کے تمام حقوق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن افسوس ان وعدوں کو وفا کرنے کا عملی مظاہرہ کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتایہاں پربڑی غورطلب بات یہ ہے کہ معذورافراد کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ بھی مخصوص کیا گیا جن کا اطلاق تمام سرکاری نیم
سرکاری اور پرائیوٹ اداروں پر ہوتا ہے تاکہ معذور افراد کو ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے معزور افراد کے کوٹہ کا قانون صرف کتابوں تک ہی رہ گیا ہے، ہر ادارہ ملازمت کے حصول کے لیے اپنی مرضی سے کوٹہ پر بھرتی کرتے ہیں امید ہے کہ حکومت معذور اور خصوصی افراد کے حقوق کیلئے بہتر اقدامات کرے گا۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں