اسلام آباد (پی این آئی) سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر واحد ایک مطالبہ کررہا کہ عمران خان کو باہر کیسے کب نکالنا ہے؟ پی ٹی آئی کا ووٹر یہ نہیں چاہتا کہ بجٹ یا نجکاری پراچھی تقریر کریں ، عمران خان کو باہر نکالنے کی پی ٹی آئی کی اسٹریٹجی ووٹر کو نظر نہیں آرہی۔
پی ٹی آئی کو مشورہ ہے کہ ووٹرز کو اعتماد میں لیں اور عمران خان کو باہر نکالنے کی اپنی اسٹریٹجی بتائیں۔ انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مستحکم جمہوریت میں لوگ سیاست چھوڑتے بھی ہیں، سیاست کا میرا جو تجربہ ہے اس میں یہ دیسی بات ہے کہ جو سیاستدان بن جاتا ہے وہ سیاست نہیں چھوڑتا، جہاں سیاست ایک دھندا بن جاتا ہے، جہاں پر میچور ڈیموکریسی ہے وہاں یہ عام بات ہے، ایک بندہ پبلک سروس یا پرائیویٹ سیکٹر سے آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے، امریکی سابق صدر اوباما اور بش کو دیکھ لیں۔ ہمارے ملک ایک بار گدی کی چس پڑ گئی تو پھر مارے گئے۔انہوں نے کہا کہ میں انسداد دہشتگردی کی عدالت سے باہر نکلا تو مجھ سے سوال ہوا کہ آئی پی پی نے آپ کو بھی جوائن کرنے کا کہا ہے تو میں نے کہا کہ بالکل آفر ہوئی ہے۔پھر کہا گیا آپ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں تو میں نے کہا جی بالکل ہوں، کیوں کہ اس وقت میں پی ٹی آئی کا حصہ تھا۔
میں نہ تو سیاستدا ن ہوں اور نہ بیک گراوٴنڈ سیاسی خاندان ہے۔ مجھے عمران خان نے متعدد بار مختلف ذریعے سے پیغام دیا کہ آپ پی ٹی آئی میں آئیں، ایک آدمی ہے پاکستان کے ساتھ مخلص ہے بہتری چاہتا ہے، اس کو ٹیکنینکلی مدد کی ضرورت ہے، عمران خان کی میری بیوی سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ بہت بڑی قربانی دی ہے، 2012میں ایک سال کیلئے شامل ہوا، 2013کا الیکشن آیا، 2013کا الیکشن آیا، میں اپنا کیریئرسب سے بڑی پاکستان کی کارپوریٹ جاب چھوڑ کر آگیا، میں نے ٹکٹ ہی نہیں مانگا، کیونکہ میرا الیکشن لڑنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا، جب الیکشن ختم ہوگیا ، عمران خان زخمی تھے، تو مجھے کہا کہ اسد مجھے پارلیمنٹ میں تمہاری ضرورت ہے، جاوید ہاشمی نے کہا کہ اسلام آباد کی سیٹ چھوڑ رہا ہوں، الیکشن لڑنا، پھر کھینچتے کھینچتے سیکرٹری جنرل بن گیا۔ عمران خان باہر نکلیں گے تو ساتھ بیٹھ کر بات کریں گے، ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے گلے شکوے ضرور کریں گے۔
عمران خان کی میرے ساتھ ذاتی تعلقات میں کوئی کمی نہیں نظر آتی۔عمران خان سارے تین سال وزیراعظم رہے کسی کی تقریب میں نہیں گئے لیکن میرے بیٹے کی شادی میں آئے تھے، میں سیاست چھوڑنے کا فیصلہ 2021میں کرچکا تھا، کہ پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد میں سیاست نہیں کروں گا۔ اگر مجھے مشکل وقت سے بچنا ہوتا تو پاگل تھا کہ اپنے اوپر 40سے زائد مقدمات بنواتا، جیل کیوں جاتا؟ ابھی تک پیشیاں بھگت رہا ہوں، میں 9 مئی سے پہلے جیل جاچکا تھا،9مئی کے بعد پریس کانفرنس کرنے اور 4ٹویٹس کرنے والے بہت شیر نہیں ۔ اسد عمر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی باہر آئیں گے تو ملاقات بھی ہوگی اور گلے شکوے بھی ہوں گے، سیاسی معاملات الگ ذاتی طور پر عمران خان نے بہت عزت دی، فیصلہ کیا ہے سیاست نہیں کرنی، لیکن عمران خان ملکی بہتری کیلئے کام کریں گے تو ٹیکنوکریٹ بن کر بھی مدد کی جاسکتی ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ شہبازشریف وزیراعظم بن تو گئے ہیں لیکن کوئی قانونی حیثیت یا معتبر نہیں ہیں،شہبازشریف کے پاس مینڈیٹ نہیں، ن لیگ کی کسی صورت اتنی سیٹیں نہیں ہیں، پاکستان آج جہاں کھڑا ہے یہ لیڈرشپ کی بہت بڑی ناکامی ہے، بیان بازی حقیقت کو نہیں بدل سکتی، پچھلے 35 سالوں میں تباہی ہوئی، بنگلادیش، انڈیا سے آگے تھے، اگر وہ تباہی نہ ہوتی تو آج ہر پاکستانی کی آمدن دوگنا ہوتی۔ اس تباہی کا مطلب یہ نظام ڈلیور نہیں کررہا ، جتنا نظام چلانے کی کوشش کی گئی وہ ہائبرڈ نظام کی مختلف شکلیں رہیں۔ مسلم لیگ ن اپنی سیاست دفن کروانے جارہی ہے، مسلم لیگ ن آج وہاں کھڑی ہے جہاں مسلم لیگ ق 2005 اور 2006 میں کھڑی تھی، حکومت میں ہیں لیکن نیچے سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔میں حکومت میں تھا تب عمران خان کو کہا تھا اپوزیشن یا باقی سیاستدانوں سے بات کریں ہمارا اس پر اختلاف رائے ہوتا تھا۔ اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر واحد ایک مطالبہ کررہا کہ عمران خان کو باہر کیسے کب نکالنا ہے؟
پی ٹی آئی کا ووٹر یہ نہیں چاہتا کہ بجٹ یا نجکاری پراچھی تقریر کریں ، عمران خان کو باہر نکالنے کی پی ٹی آئی کی اسٹریٹجی ووٹر کو نظر نہیں آرہی، پی ٹی آئی کو مشورہ ہے کہ ووٹرز کو اعتماد میں لیں اور عمران خان کو باہر نکالنے کی اپنی اسٹریٹجی بتائیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں