کراچی (پی این آئی)عمران خان کو جس انداز میں ایک کے بعد ایک کیس میں گزشتہ دنوں میں سزائیں سنائی گئیں اس نے انصاف کے نظام پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ ان مقدمات کو جلدی میں نمٹانے کی وجہ سے فیصلوں میں ایسی کمیاں، کسریں رہ گئی ہیں جس کا فائدہ مجرموں کو اپیل کے مو قع پر ہو سکتا ہے۔لیکن عمران خان کو اصل خطرہ کیا ہے ؟ اس حوالے سے سینئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے ” جیو نیوز ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ میں اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔ دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انتخابی مہم سے روکا جارہا ہے، تحریک انصاف کی خاتون رہنما کا الزام انصار عباسی نے بلاگ میں لکھا عمران خان کو جس انداز میں ایک کے بعد ایک کیس میں گزشتہ دنوں میں سزائیں سنائی گئیں اس نے انصاف کے نظام پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیئے۔ ایسا نہیں کہ ان مقدمات میں جان نہیں تھی۔ سوال اس بات پر اُٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان اور دوسرے ملزمان ان مقدمات کو لٹکانے کے لیے مختلف حیلے بہانے کرتے رہے لیکن اس کے باوجود متعلقہ عدالتوں نے ایک کے بعد ایک، 3 مقدمات میں چار پانچ دنوں کے اندر اندر فیصلے دیئے جن میں ملزمان کو سخت سزائیں سنائی گئیں۔ اس سے تاثر یہ ملا کہ جیسے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ان 3 مقدمات میں فیصلے ہر حال میں انتخابات سے پہلے آنے چاہئیں۔ ابھی تک عمران خان کے ساتھ بشریٰ بی بی اور شاہ محمود قریشی ملزمان سے سزا یافتہ مجرم بن چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کیسوں کو جلدی میں نمٹانے کی وجہ سے ان مقدمات کے فیصلوں میں ایسی کمیاں، کسریں رہ گئی ہیں جس کا فائدہ مجرموں کو اپیل کے مو قع پر ہو سکتا ہے۔ چینی وزارت دفاع کے سابق ملازم کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت، کس ملک کا شہری تھا ؟ بلاگ میں انصار عباسی نے مزید لکھا کہ آگے کیا ہوگا، کب ہوگا اس کا تو فیصلہ وقت ہی کرے گا لیکن ان سزاؤں کی بنیاد پر عمران خان کے لیے جیل میں کم از کم ایک ڈیڑھ سال گزارنا لازم نظر آتا ہے۔
کب ان فیصلوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں سنی جاتی ہیں، یہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور چند مہینوں میں کم از کم نظر نہیں آتا۔ ابھی تو عمران خان کے لیے اور بہت مشکلات ہیں۔ اگر ایک طرف عمران خان کے 190ملین پاؤنڈ یا القادر ٹرسٹ کا مقدمہ احتساب عدالت کے سامنے ہے اور نیب ایک نیا مقدمہ بھی تیار کر رہی ہے تو سب سے زیادہ عمران خان کو جس کا خطرہ ہے وہ اُن کے خلاف 9 مئی کے مقدمات ہیں۔ 9 مئی کے صرف ایک مقدمہ میں عمران خان اور شیخ رشید کے خلاف تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والے صداقت عباسی، واثق قیوم اور عمر تنویز بٹ عدہ معاف گواہ بن چکے اور یہ بیان دے چکے کہ 9مئی کی پلاننگ عمران خان، شیخ رشید وغیرہ نے کی۔ 9 مئی کے عمران خان کے خلاف کئی مقدمات ہیں اور اب دوسرے مقدمات میں یہ سامنے آنا شروع ہوگا کہ بانی تحریک انصاف کے خلاف اور کون کون وعدہ معاف گواہ بن رہا ہے۔ 9 مئی کے مقدمات کو ریاست بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ان واقعات میں شامل افراد کو نشان عبرت بنایا جائے۔ پیپلز پارٹی قائد اعظم کے مزار کو بھی بیچنا چاہتی ہے۔
بلاگ کے آخر میں انصار عباسی نے لکھا کہ اطلاعات ہیں کہ 9مئی کے حوالے سے فوجی عدالتوں میں 103ملزمان کے خلاف مقدمات تقریباً مکمل ہو چکے ہیں اور ان میں 90 فیصد پر جرائم ثابت ہو چکے ہیں۔ ان مقدمات کے فیصلے ابھی نہیں سنائے جا رہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے مقدمات جاری رکھنے کا تو حکم دیا لیکن ان مقدمات پر فیصلے سنانے کو عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کے متعلق کیس میں اپنے فیصلے کے ساتھ جوڑا۔ یعنی جیسے ہی سپریم کورٹ اجازت دے گی، فوجی عدالتوں کے فیصلے جاری کر دیئے جائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ فوج اور پولیس کے پاس عمران خان کے خلاف 9 مئی کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ہونے کے حوالے سے ثبوت موجودہ ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ 9 مئی کےحملوں کے حوالے سے پہلے مرحلہ کے مقدمات کے فیصلوں کے بعد مبینہ ماسٹر مائنڈ کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ ایسے میں عمران خان کی طرف سے ڈیل کی آفر کی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔
ویسے تو خان صاحب کسی ایک بات پر ٹھہرتے نہیں۔ چند دن پہلے تک اُن کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں پر اُن سے اسٹیبلشمنٹ بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن اب اُنہوں نے یہ کہہ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اُن سے Indirect رابطہ کرکے 3 سال تک خاموش رہنے کی ڈیل کے بدلے رعایتیں دینے کی بات کی تھی۔ فوج کے ترجمان کی طرف سے عمران خان کے اس دعوی کے متعلق ابھی تک کچھ نہیں کہا گیا۔ مجھے ذاتی طور پر عمران خان کی مشکلات کم ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہیں۔ عمران خان نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیے، کاش وہ ایسا نہ کرتے۔ اب آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے آپ کو ان مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں