اسلام آباد (پی این آئی) وزیراعظم شہبازشریف نے توشہ خانہ میں موجود تمام تحائف کو نیلام کرنے کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے فیصلہ کیا ہے کہ توشہ خانہ کے تمام تحائف کی نیلامی کی جائے گی، تحائف سے حاصل رقم یتیم خانوں اور فلاحی اداروں کو دی جائے گی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ دوست ممالک کے ساتھ چار سالوں میں تعلقات کو خراب کیا گیا، جب اقتدار ملا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔بدقسمتی سے ملک کے ساتھ چار سالوں میں زیادتیاں کی گئیں ۔ سابق دور میں تکبر اور غرور نے ملک کو گھیرا ہوا تھا۔ سیلاب، مہنگائی اور خراب معیشت جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔مزید برآں وزیراعظم شہبازشریف نے ٹیوب ویلز سولر انرجی پر منتقل کرنے کے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ پروگرام ہماری حکومت کی مدت پوری ہونے پر شروع ہورہا ہے منصوبے کی کل لاگت کا دو تہائی حصہ صوبائی حکومتیں ادا کریں گی۔آج ملک کو سستی بجلی کی ضرورت ہے، سستی بجلی کے بغیر صنعت اور زراعت میں ترقی نہیں ہوسکتی ، اس میں کوئی شک نہیں کہ زراعت کا شعبہ ملک میں انقلاب لائے گا،شمسی بجلی کی پانی اور ہوا سے زیادہ صلاحیت ہے، منصوبے سے ایک لاکھ ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل کئے جائیں گے۔تین دن پہلے جلسے میں ڈیفالٹ کا مطلب عام آدمی کی زبان کی سمجھایا تھا، آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں، لیکن اگر پروگرام نہ ملتا تو پھر پاکستان اور عوام مشکلات کا سامنا کرتے۔اگر آئی ایم ایف پروگرام نہ ہوتا تو پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا ، پھر ادویات کی دکانوں پر لائینیں ہوتیں لیکن ادویات نہ مل رہی ہوتیں۔
جان بچانے والی ادویات اور ٹیکے جو امپورٹ کرتے ہیں وہ نہ مل رہے ہوتے، پیٹرول پمپس پر لائینیں لگی ہوتی۔ زرمبادلہ کے زخائر کم ہورہا ہوتا، اس کو بچانے کیلئے ہم خام مال، سپیئرپارٹس، امپورٹس، مشینری، خوراک، صنعتوں کی ضروریات ہوتی ہیں، ہم ان کو کم کرتے۔زرمبادلہ کے ذخائر کو بچاتے ہوئے صنعتیں بند ہوجاتیں، زراعت کو نقصان پہنچتا، عالمی بینک تجارت نہ کرتے، ایل سیز نہ کھلتی۔افراتفریح مچ جاتی، یہ بہت بھیانک صورتحال ہے، اس ساری صورتحال کا سامنا سری لنکا نے بھی کیا ہے۔وہاں لائینیں لگ گئیں دکانیں لوٹی گئیں۔ اللہ نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچالیا اور آئی ایم ایف پروگرام ہوگیا۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ آپ سبسڈی نہیں دے سکتے، زرعی ترقی کیلئے ضروری کہ سستی معیاری کھاد اور سستی بجلی ملے ،ابھی 50روپے فی یونٹ بجلی پڑ رہی، کسانوں اور دو سویونٹ والوں کو کم داموں بجلی دی جاتی ہے تاکہ بوجھ نہ پڑے۔اسی طرح کسانوں کو سبسڈی دی جاتی تھی، لیکن آئی ایم ایف نے ہاتھ باندھ کہ سبسڈی نہیں سکتے، تو پھر کیا کریں، پھر یہ ہر شعبے کیلئے شمسی توانائی راستہ ہے۔ شمسی توانائی آج کی بات، ہم نے پانی پر تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے اس کے بعد خاموشی سے بیٹھ گئے۔ تیل کی کمپنیوں نے ایسا جادو جگایا کہ تیل کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں